Monday, January 23, 2012

Taxali Gate: It is not all about Heera Mandi




جہاں راتیں جاگتی اور خواب بکتے تھے۔۔۔


شہر قدیم کے ٹکسالی دروازے کے حوالے خصوصی فیچر





شہر قدیم کا یہ علاقہ غروب آفتاب کے بعد روشنیوں سے جگمگا اٹھتا اور اس کی فضا معطر ہوجاتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں راتیں جاگتی تھیں اور خواب بکتے تھے۔ قلعہ لاہور کی عقب میں واقع بازار حسن جہاں کسی زمانے میں حسن کی دوکانیں سجتی تھیں اور زندگی کی تلخیوں کو بھلا کر خواب کی تلاش میں حسین لمحات گزارتے تھے۔ شہر قدیم کے ٹکسالی دروازے کے اندر رقص و سرور سے منسوب یہ علاقہ زمانہ قدیم سے ہی موسیقاروں اور رقاصاؤں کا مسکن ہے۔ مغل عہد میں اس علاقے کو شاہی محلہ کا نام دیا گیا اور بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہیرا سنگھ کے نام پر اسے ہیرا منڈی پکارا جانے لگا۔



شہر قدیم کا ٹکسالی دروازہ فصیل شہر کے مغربی جانب جہاں ڈینٹل کالج قائم ہے اس کے دائیں جانب واقع ہے۔ کنہیا لال ’تاریخ لاہور‘ میں اس دروازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شاہان سلف کے عہد میں اس دروازہ کے اندرون شمالی میدان میں دارلضرب شاہی ایک عالی شان مکان بناہوا تھا اور اسی جگہ ہر ایک کا سکہ مسکوک و مضرب ہوتا تھا اس ٹکسال کے سبب سے اس کا نام ٹکسالی دروازہ مشہور ہوا اب اگرچہ انقلاب زمانہ نے اس ٹکسال کی بیخ و بنیاد باقی نہیں چھوڑی مگر بقیہ حصہ مسجد ٹکسالی کا باقی ہے جس کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں کا نسی کار عمدہ مسجد بنی ہوگی۔‘‘ 



ایک دوسری روایت کے مطابق اس دروازے کا رخ ٹیکسلا کی جانب ہے اس لئے اس دروازے کو ٹکسالی دروازہ کہا جانے لگا تھا۔ دارلضرب کی تعمیر عہد شاہ جہانی میں ہوئی تھی اور ٹکسال والی مسجد فدائی خاں کوکہ کے نائب عبداللہ نے تعمیر کروائی تھی۔ ٹکسالی دروازے کے بائیں جانب کھلے احاطہ میں انگریز عہد میں لیڈی ولنگڈن ہسپتال کی وسیع عمارت تعمیر کی گئی جو بادشاہی مسجد کے مغربی جانب واقع ہے۔ شہر پناہ کے مغربی جانب واقع سرکلر گارڈن شہر کے دیگر دروازوں کی نسبت کم تجاوزات کی زد میں ہے اور اسی باغ کے سامنے سرکلر روڈ کی دوسری جانب حضرت پیر مکی کا دربار اور گورا قبرستان واقع ہے۔ بیرون ٹکسالی دروازہ حضرت سید عبدلرزاق المعروف ’’بابا بندھو شاہ‘‘ کا مزار ہے۔ دربار سے ملحقہ ایک قدیم پیپل کا درخت ہے۔ ماضی میں یہاں پر تانگوں کا اڈہ اور گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض بھی تھا۔


 ٹکسالی دروازے کے اندر قدیمی ٹکسالی مسجد آج بھی موجود ہے جس کی زیریں منزل پر جوتوں کی دوکانیں ہیں اور اس سے ملحقہ شادی بیاہ کے لئے بگھیوں کی چند دوکانیں ہیں۔ یہاں دو سے آٹھ گھوڑوں والی بگھیاں مل جاتیں ۔ اس کے علاوہ پالکی ڈولی بھی مل جاتی ہے۔ یہاں میوزک بینڈز والے بھی موجود ہیں جو شادی بیاہ کی تقریبات کے لئے ساز و آواز کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ قدیمی ٹکسالی مسجد کی جنوبی دیوار جو بازار کی جانب ہے، وہاں کاشی ٹائلز و ٹیرا کوٹا جالی کے خوبصورت کام کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ بازار شیخوپوریاں کہلاتا ہے۔ مسجد کی زیریں منزل پر کھوکھا جات ہیں جن سے محکمہ اوقاف کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ بازار کھسہ جات، کوہاٹی چپل اور پشاوری چپل کے حوالے سے خاص شہرت کا حامل ہے۔ بازار سے آگے جائیں تو ٹبی محلہ آجاتا ہے جب کہ بائیں جانب قدرے ہٹ کر تکیہ صابر شاہ ولی ہے جہاں مزار و مسجد موجود ہے۔ مزار سطح زمین سے دس گیارہ فٹ بلند پلیٹ فارم پر واقع ہے


 ٹکسالی دروازے کے راستہ شاہی محلے اور نخاس منڈی سے گزرتا ہوا قلعے کے ساتھ ساتھ مستی دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ سڑک شاہی قلعہ اور شہر قدیم کو علیحدہ بھی کرتی ہے۔ آبادی اور تجارتی مرکز ہر دو لحاظ سے ٹکسالی دروازے کا علاقہ کم آباد ہے۔



ٹکسالی دروازے کا علاقہ شاہی قلعے کے بالکل عقب میں واقع ہے اس لحاظ سے یہ امرا اور شاہی حکمرانوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اندرون ٹکسالی دروازے کا شاہی محلہ قدیم دور سے ہی طوائفوں کا مرکز رہا ہے۔ ہر چند کہ اب شاہی محلہ کی رونقیں ناپید ہو چکی ہیں لیکن کسی زمانے میں گھنگھروؤں کی چھنکار سے یہ علاقہ گونجتا تھا۔ دوسری جانب ٹبی کا علاقہ پیشہ ور عورتوں کا مسکن ہے۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں خوشی کے چند لمحات کی تلاش میں سرکرداں لوگوں کی جنت تھی۔ یہاں آنے والوں میں نوجوان، بوڑھے، شادی ، غیر شادی شدہ بھی افراد شامل تھے جو ناچنے گانے والی لڑکیوں کے ساتھ حسین لمحات گزارتے تھے۔ امراء کے لئے ہیرا منڈی میں آنا شان کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ان میں سب سے خوبصورت طوائف کا مالک ہونا فخر اور بڑائی کی علامت تصور ہوتا تھا۔ تاہم بات صرف ناچنے گانے تک محدود نہیں رہتی تھی جو افراد قیمت ادا کر سکتے تھے ان کے لئے دیگر خدمات بھی میسر تھیں۔



زمانہ قدیم میں طوائف کا گھر ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا ، خاص طور پر مغل عہد میں ناچنے گانے والی چند لڑکیوں نے شاہی دربار تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ وہاں وہ اشرافیہ کو موسیقی، شاعری اور رقص میں اپنی کاملیت اور دستگاہ کی بدولت تفریح کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ ان میں برطانوی مہمان بھی شامل ہوتے تھے۔ امراء اور نواب خاندانوں کے نوجوان کو آداب و وضع داری سکھانے کے لئے طوائفوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔



برطانوی عہد میں ہیرا منڈی کی رونقوں اور شان و شوکت میں خاصی کمی آگئی اور نوابی نظام کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ لیکن نئی وجود میں آنے والی ریاستوں اور پنجاب کے جاگیرداروں کی سرپرستی میں ہیرا منڈی آباد رہی ۔ ناچنے گانے اور موسیقی کی محفلیں نوابوں اور جاگیرداروں کی ڈیروں پر منعقد ہونا شروع ہو گئیں اور کئی نسلوں تک فن موسیقی ہیرا منڈی کے خاندانوں تک محدود رہا۔ برصغیر کی کئی نامور گلوگاراؤں نے یہیں جنم لیا تھا۔


بھارتی ادیب پران نوائل اپنی تصنیف ’’جب لاہور جوان تھا‘‘ میں ہیرا منڈی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’20ء کی دہائی میں تھیڑیکل کمپنیوں نے ہیرامنڈی کی ان طوائفوں کو کچھ آزادی مہیا کی لیکن 30ء کی دہائی میں سینما کی آمد سے ان کے لئے اپنے فن کے اظہار کا ایک درخشاں باب کھلا۔بعد میں ان میں سے کئی نمایاں ستارے پیدا ہوئے۔ براڈ کاسٹنگ کی وجہ سے کئی دوسروں نے بھی ریڈیو آرٹسٹ کے طور پر گانا شروع کر دیا۔ ان میں ایک عمرہ ضیا اپنے گانے ’’میرا سلام لے جا۔۔۔ تقدیر کے جہاں تک‘‘ کی بدولت 1935ء کے لگ بھگ راتوں رات ایک بڑی گائیکہ بن گئی۔‘‘ برصغیر کے سینما کی ابتدائی دور میں لاہور کا یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ یہیں پر لاہور کا قدیم تھیٹر واقع تھا جسے بعد ازاں پاک ٹاکیز کا نام دے کر سینما گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں پر ملکہ ترنم نور جہاں اور دیگر اداکارائیں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ پاک ٹاکیز کے ساتھ ہی باؤ حمید کی کٹڑی ہے جہاں اردو ادب کے معروف افسانہ نگار غلام عباس قیام پذیر رہے۔ غلام عباس کا افسانہ ’آنندی‘ کا تانہ بانہ بھی ہیرا منڈی کے گرد بنا گیا ہے اور بعدازاں اسی افسانے سے ماخود فلم ’منڈی‘ بھی تیار کی گئی۔



اندرون ٹکسالی موسیقاروں کا مسکن رہا تھا اور یہاں برصغیر کے بے شمار فن کاروں نے جنم لیا اور کئی دیگر فنکارائیں یہاں استادوں سے موسیقی کی تربیت حاصل کرنے آتی تھیں ان میں عیدن بائی اکھیاں والی، عید بائی ہسیاں والی، زیب النسا اور عنایت بائی قابل ذکر ہیں۔ موسیقاروں میں طافو گھرانہ، ایم اشرف، مشتاق علی ، استاد دلاور حسین اور استاد خوشنود دلاور کے نام قابل ذکر ہیں۔ استاد دلاور حسین کے بیٹے استاد ظفر دلاور آج بھی شاہی محلہ میں رقص کی تربیت دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے اپنے زمانے کی کامیاب ترین اداکاراؤں عالیہ، نگو، زمرد، مسرت چودھری، ممتاز، زینت، آشا پوسلے اور صبیحہ خانم کو رقص کی تربیت دی تھی جبکہ ریما، بندیا، زیب الطاف اور زیبا بختیار جیسی اداکاراؤں نے ان کے بھائی خوشنود دلاور سے رقص کی تربیت حاصل کی تھی۔استاد ظفر دلاور کا کہنا ہے اس وقت شاہی محلہ میں رقص کی تربیت دینے والے صرف چند افراد باقی رہ گئے ہیں۔ فن موسیقی اور رقص کا گہوارہ یہ علاقہ ویران ہو چکا ہے ۔ اس لئے انہوں نے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے رقص کی تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 



اندرون ٹکسالی دروازے کا یہ علاقہ ذہنی و جسمانی سکون کا مرکز تھا۔ گھنگھروؤں کی جھنکار اور قہقہوں کی گونج فضا میں رقصاں رہتی تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی لوہاری دروازے کے باہر انارکلی کے پاس جہاں کئی ریستوران اور شراب خانے تھے تانگوں کی قطاریں لگ جاتیں۔ چار نشتوں والے تانگے ٹکسالی دروازے اور راوی روڈ کے راستے ہیرا منڈی جانے کے لئے بھاٹی دروازے کی جانب بھاگ رہے ہوتے تھے۔ اکثر افراد لوہاری دروازے کے اندر چوک چکلہ ، لوہاری منڈی اور سید مٹھا بازار سے ہوتے ہوئے ہیرا منڈی پہنچتے تھے۔ 



آج سے تقریباً چالیس پچاس برس قبل ہیرا منڈی میں چلتے ہوئے بالا خانوں کی کھڑکیاں دیکھی جا سکتی تھی جن پر پردے لٹکتے ہوتے تھے اور جن کے پیچھے ناچنے گانے والی لڑکیاں اپنے گاہکوں کا دل بہلاتی تھیں۔ سارنگی کی تانیں اور طبلے کی تھاپ باہر ہی سے سنی جا سکتی تھی۔ گاہک کو جگمگاتی روشنیوں کے درمیان است قالین سے مزین فرش پر بٹھایا جاتا جس کے اوپر سفید چادریں بچھی ہوتی تھی اور ان کو سہارے کے لئے گاؤ تکیے بھی دیے جاتے، گانے والی لڑکی درمیان میں بیٹھتی اور اس کے پیچھے سازندوں کی ٹولی اپنے ساز لئے گائیکہ کے ساتھ سنگت کر نے کے لئے تیار بیٹھ جاتی اور نائکہ کی اشارے پر محفل کا آغاز ہوتا۔ غزل، ٹھمری اور گیت گانے کے دوران حاضرین داد کے ساتھ روپے بھی نچھاور کرتے۔ سازندے اپنے دازوں کے ذریعے گانے کے بول دہرا کر ایسی نغماتی فضا پیدا کر دیتے جس سے سننے والے اور گانے والے درمیان ایک ہم آہنگی پیدا ہو جاتی۔ 



ہیرا منڈی کی طوائفوں میں نتھ کھلوائی کا جشن بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ سونے یا چاندی کی نتھ روایت کے مطابق اس کے کنوارے پن کی علامت سمجھی جاتی تھی اور نتھ کھلوائی کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ اپنے نئے پیشے کا آغاز کر رہی ہے۔ اس موقع پر جشن کا سا سماں ہوتا تھا ۔


شاہی محلہ میں ایک طوائف کے گھر میں آنکھ کھولنے والی لڑکی کا مستقبل ناچنے گانے اور جسم فروشی
 سے وابستہ ہوتا ہے، کسی طوائف یا جسم فروش کے ہاں لڑکی کا پیدا ہونا خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی نسبت لڑکے کو بوجھ خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم اقبال حسین ایک ایسا نام ہے جس نے اپنی شناخت خود قائم کی۔ وہ ایک طوائف کے بطن سے پیدا ہوئے لیکن آج ان کا شمار ملک کے نامور ترین مصوروں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے شاہی محلے کے گلی کوچوں، گھروں اور طرز زندگی کو کینوس پر اتارا۔ انہوں نے شاہی محلہ میں ریستوران بھی قائم کر رکھا ہے جہاں ان کی مصور کردہ تصاویر آویزاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ میں نے مصور کیا میرے ارد گرد یہی زندگی ہے اور میں نے اسی ماحول میں زندگی گزاری۔ 



لاہور کی ہیرا منڈی جو نوابوں اور امرا کا مسکن ہوا کرتی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ہیرا منڈی کی رونقیں بھی ویران ہوتی چلی گئیں۔ یہاں گانے بجانے اور ناچنے والیاں شہر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئیں۔ خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں اس علاقے کی ثقافت اور قدیم روایات کو تہس نہس کر دیا گیا۔ یہاں بسنے والے خاندانوں کو مجبوراً شہر کے دیگر علاقوں کا رخ کرنا پڑا اور ہیرا منڈی شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ آج لاہور کی ہیرا منڈی برائے نام رہ گئی ہے۔ ہیرا منڈی میں رقص و سرور کی محلفوں کے پردے میں جسم فروشی کا کاروبار ہوتا ہے۔ مختلف شہروں سے لڑکیوں کو یہاں صرف پیشے کے لئے لایا جاتا ہے۔ البتہ چند ایک گھروں میں آج بھی موسیقی اور رقص کی تربیت دی جاتی ہے اور رقص کی محافل ہوتی ہیں۔ 

Ustad Daman Di Bethak


اندرون ٹکسالی دروازے پنجابی زبان کے عظیم شاعر استاد دامن کا ڈیرہ بھی ہے۔ ٹکسالی مسجد کی زیریں منزل پر ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل یہ ڈیرہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کمرہ شاہ حسین کے نام سے منسوب ہے اور اسے حجرہ شاہ حسین بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ البتہ استاد دامن کے یہاں قیام کے وقت یہ بیٹھک علمی و ادبی درسگاہ کے طور پر جانی پہچانی جاتی تھی۔ فیض، حبیب جالب، سائیں اختر لاہوری، قمر یورش، اداکار محمد علی اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی یہاں محفل سجتی تھی۔ جواہر لال نہرو نے بھی استاد دامن سے اس حجرے میں ملاقات کی تھی۔ مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاؤس کے بعد لاہور کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی یہ سب سے اہم بیٹھک تھی۔ استاد دامن کی وفات کے بعد ان کے نام سے منسوب استاد دامن اکیڈمی کا قیام یہیں عمل میں آیا اور استاد دامن کے شاگرد سائیں اختر لاہور اس کے صدر بنے اور سائیں اختر لاہور کی انتقال کے بعد محمد اقبال محمد نے دامن اکیڈمی کے انتظامی امور سنبھالے۔ محمد اقبال محمد کا کہنا ہے اس بیٹھک کے دروازے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔ آج بھی یہاں ادب میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان یہاں آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور ہمیں لاہور کے ادبی کلچر کو زندہ رکھنا ہوگا۔ حکومت کی عدم توجہ کے باعث لاہور کی ادبی بیٹھکیں ویران ہوگئیں جنہیں پھر سے آباد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 



ٹکسالی دروازہ جو فنون لطیفہ اور ثقافت کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے وہیں پہلوانی میں بھی اس علاقے کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ برصغیر پاک ہند کے کئی نامور پہلوان اس علقے کے اکھاڑوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شاہی قلعہ کے جنوب کی طرف بجلی گھر کے قریب تکیہ مستان شاہ میں یہ اکھاڑہ واقع ہے۔ اس اکھاڑے کو کھائی والا اکھاڑہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلوانوں کے گروہ ’کالو والے‘ کا اکھاڑہ ہے۔ اس کھاڑے نے برصغیر کے بہترین شہ زور پہلوان پیدا کئے جن میں بوٹا پہلوان نے تقسیم سے قبل کئی نامور پہلوانوں کو پچھاڑا تھا۔ انہیں رستم ہند کہا جاتا تھا ، ہندو ستانی ریاستوں میں ان کی بہت عزت تھی۔ دنگل میں کسی سے ہار نہیں مانی، بڑے بڑے پہلوان ان کی شہ زوری کا لوہا مانتے تھے اور استادی کے قائل تھے۔ بوٹا پہلوان کے بعد چوہا پہلوان مرحوم ، مہنی پہلوان، گاموں پہلوان بالی والا اور گونگا پہلوان نے بھی اسی اکھاڑے سے فن کشتی کا آغاز کیا تھا۔ ان میں سے گونگا پہلوان ایسا نام ہے جس پر پاکستان کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ گونگا پہلوان، گاموں پہلوان بالی والا کے فرزند تھے اور بچپن میں تپ محرقہ کے باعث قوت گویائی سے محروم ہو گئے تھے اس لئے گونگا پہلوان کے نام سے مشہور ہو گئے۔ انہوں نے امام بخش پہلوان کو تاریخی دنگل میں پچھاڑا تھا۔ ان نامی پہلوانوں کے علاوہ اس اکھاڑے نے اور بھی پہلوان پیدا کئے جن میں جانی جی والا، جانی ڈنگر، ساجا گھگھو، ساجا کبابی، کالا خراسیہ، فرید پینٹر، برکت ناگاں والا، صدرو، محمد حسین، شیدا پہلوان اور عظیم پہلوان قابل ذکر ہیں۔


 عظیم پہلوان اس وقت پاکستان ریسلنگ ٹیم کے کوچ بھی ہیں اور اولمپکس گیمز میں متعدد تمغے حاصل کر چکے ہیں۔ لاہور کے چند آباد اکھاڑوں میں سے یہ سب سے با رونق اکھاڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک سے فن کشتی کا خاتمہ ہو رہا اور حکومت اس روایتی کھیل کی جانب توجہ نہیں دے رہی۔ یہاں کے پہلوانوں نے پوری دنیا میں نام روشن کیا لیکن آج محض چند مقامات ایسے ہیں جہاں روایتی کھیل کھیلا جاتا ہے۔


لاہور کے دیگر دروازوں کی طرح اندرون ٹکسالی دروازے بھی اشیا خوردونوش کے حوالے سے خاص مقام رکھتا ہے۔ ترنم سینما چوک پر مشہور سری پائے کی دوکان ہے۔ جو اس علاقے کی سوغات سمجھے جاتے ہیں۔ اس دوکان کے بالکل سامنے قدیم شاہجہانی مسجد ہوتی تھی جس کو گرا کر اب نئی مسجد تعمیر کی گئی اس کے ساتھ ہی مزار بابا نو گزے پیر ہے۔ 



اندرون شہر کے اس علاقے کی فضا کبھی عطر کی خوشبوؤں سے لبریز ہوتی تھی، کانوں میں رس گھولتی موسیقی کی آواز اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ گھنگھروؤں کی چھنکار ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ آج اندرون ٹکسالی کے گلیاں گندگی اور تعفن سے لبریز ہیں۔ گشت کرتی ہوئی پولیس کی ٹولیاں  ہیں اور دروازوں کی اوٹ سے جھانکتی آنکھوں میں خوف جھلکتا ہے۔ اب نہ گھنگھروؤں کی چھنکار سنائی دیتی ہے اور نہ رقص کا کوئی سامان مہیا ہے۔ بس چند دروازے ہیں اور ان کے اوٹ میں کھڑی گاہک کی منتظر آنکھیں



Sunday, January 15, 2012

Anarkali: Symbol of Love, A True Legend or A Myth





عشق، محبت اور وفا کی علامت۔۔۔ انارکلی

مقبرہ انارکلی کے حوالے سے خصوصی رپورٹ

Tomb of Anarkali. Photo by: Afzal Abbas


انارکلی عشق، محبت اور وفا کی تصویر ہے اور مقبرہ انارکلی کو محبت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ برصغیر میں عشقیہ و رزمیہ داستانوں میں انارکلی کے کردار کو مثالی کردار قرار دیا جاتا ہے۔ محبت کرنے والے انارکلی کو وفا کی علامت تسلیم کرتے ہیں ۔ اقتدار اور محبت کی جنگ انارکلی کا فسانہ ہے۔



دوسری جانب اس امر کا تعین کرنا خاصا تحقیق طلب کام ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ مغل دور حکومت فن تعمیر کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ان کی تعمیر کردہ عظیم الشان عمارات جہاں مرقع کاری اور کاریگری کے مبہوت کر دینے والے عناصر سے مزین ہیں وہیں وہ دور اپنے پیچھے ایک محبت کی لازوال داستان چھوڑ گیا ہے۔ انار کلی اور شہزادہ سلیم (جہانگیر)کے عشق کی داستان ایک ختم نہ ہونے والی بحث میں تبدیل ہو گئی ہے۔ تاریخ دانوں اور عوام کی آراء بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف النوع خیالات و قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس بات کا فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق ایران کا ایک سوداگر اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آیا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ڈاکوؤں نے سوداگر کو قتل کر دیا اور اس کی خوبرو بیٹی راجہ مان سنگھ حاکم کابل کے پاس فروخت کر دی گئی۔ راجہ مان سنگھ نے اسے شہنشاہ اکبر کے حضور تحفتاً پیش کیا۔ اکبر نے اسکے حسن سے متاثر ہر کر اسے انار کلی کا نا م دیا۔ اور اسے دربار میں رقاصہ خاص کا درجہ دیا گیا۔



ایک روایت کے مطابق 1599 ء میں اکبر کے وزیر خاص ابو الفضل نے اکبر کے سامنے انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کے تعلقات سے متعلق میں شبہ کا اظہار کیا۔ ایک موقع پر شیش محل میں جہاں شہنشاہ اکبر نے شاہی دربار لگا رکھا تھا، سلیم اور انار کلی کے درمیان مسکراہٹوں کے تبادلے نے شہنشاہ اکبر کے شبہات کو یقین میں بدل دیا اور شہنشاہ نے انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔ اس حوالے سے بے شمار عوامل تحقیق طلب ہیں کہ کیا انار کلی ایک زر خرید کنیز تھی اور اس کے دل میں شہزادہ سلیم کو اپنے دام محبت میں گرفتار کرنے کا خیال تھا تاکہ وہ آئندہ تخت پر بیٹھنے والے سے منسلک ہو کر ہندوستان کی ملکہ کی حیثیت اختیار کرے۔ یہ بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انار کلی کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں یا یہ محض ایک فرضی داستان ہے۔ یہ سب باتیں متنازعہ ہیں اور اس حوالے سے مختلف تاریخ دان مختلف آراء بیان کرتے ہیں۔ مولوی نور احمد چشتی اپنی تصنیف ’تحقیقات چشتی‘ میں لکھتے ہیں کہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کی داستان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، ان کے خیال کے مطابق شہنشاہ اکبر نے نادرہ بیگم یا شریف النساء کو اسکے حسن کی وجہ سے انار کلی کا خطاب دیا تھا۔ اپنے مسحور کن حسن کی وجہ سے وہ دوسری بیگمات کے حسد کا شکار ہوئی اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ایک اور روایت کے مطابق جب اکبر دکن کی مہم پر تھا تو یہ حسین عورت کسی بیماری میں چل بسی۔ 



سید محمد لطیف اپنی کتاب ’تاریخ لاہور اور اس کے آثار قدیمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی موقع پر شہنشاہ اکبر نے اسے اور شہزادہ سلیم کی مسکراہٹوں کو آئینے میں دیکھا اور اس بنا پر اسے دیوار میں زندہ چنوا دیا۔ انار کلی کے بارے میں سب سے پہلا تذکرہ ایک انگریز ولیم فن چکا ہے جو کاربار کے سلسلے میں 1611ء میں لاہور آیا تھا۔ فقیر سید اعجاز الدین نے ولیم فنچ کا ذکر اپنی کتاب’لاہور‘ میں کیا ہے کہ فنچ نے لاہو رمیں ایک مقبرہ دیکھا جس کے بارے میں اسے بتایا گیا یہ ایک خاتون نادرہ کا مقبرہ ہے جسے اکبر کے حکم سے دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ اس بات کو دیگر محققین تسلیم نہیں کر رہے تھے کیونکہ اکبر کے دور میں شیش محل تعمیر نہیں ہو ا تھا بلکہ اس کو شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا لیکن بعد ازاں ایک اور انگریز مو’رخ نے 1935ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک رسالے میں مضمون لکھا جس میں انہوں واضح کیا کہ جن آئینوں سے اکبر نے سلیم اور ایک کنیز کو دیکھا تھا وہ دو فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے آئینوں کی ایک قطار تھی جو اس دور میں قلعہ لاہور کے رہائشی حصے میں نصب تھی۔ ایک مورخ ٹیری نے اپنے رسالہ ٹیری جرنل میں 1655ء میں لکھا کہ شہنشاہ اکبر نے شہزادہ سلیم کو تخت سے الگ کرنے کی دھمکی دی تھی، اور اس کی وجہ اکبر کی منظور نظر کنیز انار کلی تھی۔



یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس داستان کا مرکزی کردار شہزادہ سلیم اس معاملہ میں بالکل خاموش ہے اس نے اپنی خود نوشت تزک جہانگیری میں اپنے بے شمار دوسرے مشاغل اور دلچسپیوں کا بے باکی سے ذکر کیا ہے۔ لیکن انار کلی کے واقعہ کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔



کنہیا لال ہندہ اس حوالے سے ’تاریخ لاہور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’انارکلی ایک کنیز نہایت خوبصورت اکبر بادشاہ کے محل کی تھی جس کا اصلی نام نادرہ بیگم تھا۔ بادشاہ نے باسبب اس کے کہ حسن و جمال میں لاثانی تھی اور رنگ سرخ تھا، انارکلی کے خطاب سے اس کو مخاطب کیا ہوا تھا ۔ جن دکھوں بادشاہ دکھن و خاندیس کی مہموں میں مصروف تھا ، یہ لاہور میں بیمار ہو کر مر گئی۔ بعض کا قول ہے کہ مسموم ہوئی۔ بادشاہ کے حکم سے یہ عالیشان مقبرہ تعمیر ہوا اور باغ تیار ہوا جس کے وسط میں یہ مقبرہ تھا۔ سکھی سلطنت کے وقت باغیچہ اجڑ گیا، چار دیواری کی اینٹیں خشت فروش اس کو گرا کر لے گئے، مقبرہ باقی رہ گیا۔ اس میں جو سنگ مرمر کا چبوترہ تھا اس کا پتھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اتروالیا۔ قبر کا تعویذ ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا‘‘۔ 



اس تمام تاریخوں حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیشتر موؤخین کی رائے ہے کہ انار کلی کی داستان محض ایک افسانہ ہے جسے امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی نے لازوال شہرت بخش دی ہے اور امر بنا دیا۔ امتیاز علی تاج نے یہ ڈرامہ 1923ء میں لکھا تھا اور انہوں نے بھی اس ڈرامے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کی اس کہانی کے پس منظر میں محض وہی تاریخی حقیقت ہے جس کا ولیم فنچ نے ذکر کیا ہے باقی سب محض کہانی ہے۔



کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ جگہ جسے انار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے (موجودہ سول سیکریٹریٹ، لوئر مال روڈ، لاہور) دراصل جہانگیر کی ایک ملکہ صاحب جمال کا مقبرہ ہے اس جگہ کے اطراف میں انار کلی باغ تھا۔ اسی مناسبت سے اس مقبرے کو انار کلی کا مقبرہ قرار دیا جاتا ہے۔ انار کلی کے نام کے حوالے سے لاہور میں قائم ہونے والے انار کلی بازار کی شہرت بھی دوامی ہے۔

انارکلی کا مقبرہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ کنہیا لال ہندی اس مقبرے کی عمارت کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس مقبرے کی عمارت ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو میں ایک ایک دروازہ ہے۔ اندر سے مقبرہ دو منزلہ ہے اور وسط میں عالی شان گنبد ہے۔ دوسری منزل میں چھوٹی بڑی نو کھڑکیاں ، چھوٹے گنبد ہیں۔ پہلے اس کے آٹھ دروازے نیچے اور آٹھ اوپر کی منزل میں تھے اب زیریں منزل کے آٹھ دروازے بدستور ہیں اور اوپر کے دروازوں میں تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ 



پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ نے ایک منصوبے کے ذریعے لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں واقع انار کلی کے مقبرے کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے اور اس کی حدود کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کر کے ایک تاریخی عمارت کے طور پر عام لوگوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور مقبرے کے عقب میں واقع 24سرکاری کوارٹرز ملازمین سے خالی کروا کے منہدم کر دیے گئے ہیں۔ مقبرے کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کرنے کے لیے عقب میں اس کا اپنا ایک دروازہ تعمیر کیا جائے گا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ کے اندر اس کے گرد دیوار بنا کے اس کو ایک علیحدہ تاریخی عمارت میں تبدیل کیا جائے گا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے کھدائی کا کام جاری ہے جو کہ مقبرہ اور اس کے ارد گرد کے تاریخی اہمیت کے حامل آثار اور تاریخی حقائق فراہم کرنے میں مدد دے گی۔ مقبرہ انار کلی مغلیہ دور میں تو ایک مقبرہ ہی رہا ۔ سکھ دور میں لارڈ فرانسس کے ماتحت چار سکھ پلٹنیں تھیں، انہوں نے رہائش کے لئے اس مقام کو موزوں تصور کیا اور یہاں قیام پذیر ہوگئے۔ 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہ عمارت گرجا گھر میں تبدیل کر دی گئی تھی اور عمارت کو سفید چونے سے ڈھک دیا گیا اور گنبد پر صلیب نصب کر دی گئی۔ اورانگریزوں ہی نے 1891ء میں اس کو پنجاب ریکارڈ آفس بنا یا تھا اور آج تک یہ ریکارڈ روم ہی کہلاتا ہے مگر یہاں سنگ مرمر کی قبر کا ایک نشان Cinetaph ہمیشہ موجود رہا ہے جس کی وجہ سے اس کوانار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔اب پنجاب حکومت نے اس کی مزید تاریخی حیثیت سے پردہ اٹھانے کیلئے اس کے احاطے کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کی جارہی ہے۔



محکمہ آثار قدیمہ کے عہدے دار سلیم الحق کے مطابق صدیوں سے رنگ وروغن کی مختلف تہیں جو اس مقبرے پر جما دی گئی ہیں ان کو بھی سائنسی انداز میں ہٹایا جائے گا تاکہ اس عمارت کی اصل شکل و صورت سامنے آئے اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی وہی شکل بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو تعمیر کے وقت تھی۔ ان کے مطابق سکھوں کے دور حکومت میں اس مقبرے کو کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا اور مقبرے چونکہ چاروں طرف سے کھلے ہوتے ہیں لہذا رہائش گا ہ میں تبدیل کرتے وقت اس کی باہر کی طرف واقع محرابوں کو دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ مقبرے کی یہ تجاوزات بھی ایک طرح سے سکھ دور کے طرز تعمیر کی نمائندہ ہیں لہذا یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جن تجاوزات کو ہٹانا ضروری نہیں ہے ان کو سکھ دور کی علامت کے طور پر قائم رکھا جائے اور باقی تجاوزات کو ختم کر کے مقبرے کو اصلی شکل میں بحال کیا جائے۔ 



تاریخی طور پر اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ قبر انارکلی نام کی کسی خاتون کی ہے ۔ قبر کے پتھر پر بھی کچھ اشعار اور سن وفات 1599ء درج ہے مگر کوئی نام درج نہیں ہے۔ قبر پر مجنوں سلیم اکبر کا نام کندہ ہے ۔اس دور میں جہانگیر کا نا م نورالدین سلیم لکھا جاتا تھا جبکہ بعد ازاں وہ بادشاہ بنا تو اس کا نام نورالدین جہانگیر ہو گیا تھا لہذا مجنوں سلیم اکبر کا نام بھی تحقیق طلب معاملہ ہے۔ البتہ بعض تاریخ دانوں نے یہ مو’قف اختیار کیا ہے کہ یہ مقبرہ جہانگیر کی ایک بیوی صاحب جمال کا تھا جو جہانگیر کی عدم موجود گی میں لاہور میں وفات پاگئیں اور یہیں دفن ہو گئیں۔ لیکن مغل بادشاہ اپنی بیگمات کے مقبروں پر لازمی طور ان کے نام کندہ کرواتے تھے مگر یہاں کوئی نام کندہ نہیں ہے۔ مختلف محققین کے مطابق اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ 1599ء میں اس صاحب مزار کا سن وفات ہے اکبر اور ان کا بیٹا سلیم دونوں لاہور سے باہر تھے ، عام لوگ اس کو انار کلی کا مقبرہ ہی کہتے ہیں اور مستقبل میں اس پر کتنی بھی مزید تحقیق ہو جائے ڈراموں اور فلموں نے انار کلی کے کردار کو ان کے بقول جس طرح امر کر دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مقبرہ اس کردار کے نام ہی موسوم رہے گا۔



انارکلی کے کردار کو امر کرنے کا سہرا ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے ’انارکلی‘ ڈرامہ لکھ کر اس کردار کو عشق و محبت کے داستانوں میں ان مٹ تاریخ رقم کر دی ہے۔ ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کی منظر نگاری کی گئی ہے۔ ڈرامہ نگار نے اس ڈرامہ کے توسط سے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ محبت ایک لازوال طاقت ہے چنانچہ جب قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی اور سوگ کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ امتیاز علی تاج اس حوالے سے خود کہتے ہیں’’میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے ۔ بچپن سے انارکلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔‘‘ البتہ اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔



اس ڈرامہ میں انکا کردار نہایت جاندار ہے۔ وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔



انارکلی کی یہ فرضی کہانی برصغیر کے سینما میں بھی اہم مقام کی حامل رہی ہے۔ عشق اور اقتدار کی جنگ بالی وڈ کی رومانوی فلم کے لیے ایک آئیڈیل پلاٹ مہیا کرتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں کئی شاہکار اور کاسیک فلمیں تیار کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں 1953ء میں پردیپ کمار، بینا کماری اور نور جہاں کی کاسٹ پر مشتمل پر ’انارکلی‘ قابل ذکر ہے۔1958ء میں بھی پاکستان میں انارکلی کے نام سے فلم بنائی جس میں انارکلی کا کردار نور جہاں نے ہی ادا کیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں کے آصف کی تیار کردہ فلم ’مغل اعظم‘ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان کے حوالے سے بنائی جانے والی تمام فلموں میں کامیاب ترین قرار دی جاتی ہے۔ تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت میں اس عشقیہ داستان کو مختلف انداز میں فلمایا جا چکا ہے۔کچھ عرصہ قبل شعیب منصور نے ویڈیو گیت ’عشق‘ میں انارکلی کی داستان کو مختصر انداز میں پیش کیا تھا۔ انارکلی کے کردار میں ایمان علی اور پس پردہ آواز  شبنم مجید  کی تھی جسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ 



حیقیقت خواہ کوئی بھی ہو۔ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کا قصہ محض فرضی داستان تھا یا نہیں۔ مقبرہ انارکلی میں قبر انارکلی کی ہی ہے یا نہیں۔ اس تمام امور سے قطع نظر ادب و ثقافت پر اس کردار نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ صدیوں سے مقبرہ انارکلی عشق اور محبت کی علامت کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے اور آج بھی لوگ انارکلی کو عشق، محبت اور وفا کی علامت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔  






Tuesday, January 3, 2012

Memorable Quotes by Salmaan Taseer







On January 4, 2011, Governor Punjab Salmaan Taseer was assassinated in Islamabad, Pakistan by his own security guard Mumtaz Qadri, who disagreed with Taseer's opposition to Pakistan's blasphemy law.

 Eight hours before his assassination, he tweeted an Urdu couplet by Shakeel Badayuni:
 "My resolve is so strong that I do not fear the flames from without, I fear only the radiance of the flowers, that it might burn my  garden down."

Some memorable quotes by Salmaan Taseer he Tweeted at his Twitter Account @SalmaanTaseer

“Mera azm itna bulund hae Parae sholon se dar nahin. Mujhe dar hae tu atish e gul se hae Ye kahin chaman ko jala na dein significant?”

“Peace prosperity & happiness for new year ( 1 1 11 ) i'm full of optimism”

“I was under huge pressure sure 2 cow down before rightest pressure on blasphemy.Refused. Even if I’m the last man standing”

“My observation on minorities: A man/nation is judged by how they support those weaker than them not how they lean on those stronger”

“Maulvis have given a fatwa against me!! It gets better and better”

“There’s a demonstration of about 150 maulvis outside Governors House calling 4 my head! Quite pathetic”

“You can detain persons but u cannot arrest ideas which is why prisoners of conscience are always free”

“The sentencing of Asia Bibi 4 blasphemy by a magistrate is more damaging 2 Pakistans image than the attack on CID HQ in Karachi”

“The Punjab govt has ordered the Ruet e Hilal Committeeto sight the Governor and report his whereabouts”
Ruet e Hilal Committee (the committee who sees moon before Islamic holiday)

“They issued fatwas against Benazir [Bhutto] and Zulfikar Ali Bhutto [her father, an executed former president], and even the founder of the nation, Muhammad Ali Jinnah. I do not care about them,”

“Today is the birthday pf the great Qaid e Azam we need 2 pledge 2 uphold his liberal progressive humane vision of Pakistan”

“Trader bazaari mullah axis pressure from the street supporting blasphemy law. Same crowd that agitated against PPP in 1977 & welcomed Gen Zia”
General Zia was Islamic fundamentalist. who tried to establish Islamo-fascist laws after taking over.

“I’m ok wth my effigy being burnt and Fatwas against me but i’m really angry that I’m not mentioned anywhere in Wikileaks!”

“Now Maulana Fazal ur Rahman wants me out because of my views! Phir hamee qatl ho ayen yaaro chalo”
Phir hamee qatl ho ayen yaaro chalo( let us go and get killed instead friends). Literal translation of poetry.

“My advice 2 mullahs who r telling little madrassah boys that they have a ticket 2 heaven: Grab it urself or give it 2 ur son”

“Tomorrow mullahs r demonstrating against me after Juma. Thousands of beards screaming 4 my head.What a great feeling!”

“Religous right trying 2 pressurise from the street their support of blasphemy laws. Point is it must be decided in Parlaiment not on the road”

“It took Maulana 4 weeks 2 realize I oppose blasphemy laws. Perhaps Swati being sacked 4 corruption was the wake up call ?”