Tweet
شہر ایک بار پھر بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہا۔ اس بارحملہ آوروں نے شہر کے جنوب سے حملہ کیا لیکن دربان شہر کی جرات مندی اور کامیاب حکمت عملی سے فوجیں شہر میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ شہنشاہ وقت جلال الدین اکبر نے اپنے دربان موتی رام کو انعام کے طور پر شہر کے جنوبی سمت کھلنے والے دروازے کا نام عطا کر دیا۔ شہر میں منادی کروادی گئی کہ جنوبی رخ میں کھلنے والا دروازہ ’موتی دروازہ‘ کہلائے گا۔ جسے بعدازاں موچی دروازہ کہا جانے لگا۔
شہر قدیم کا موچی دروازہ جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کے دائیں جانب اکبری دروازہ اور بائیں جانب شاہ عالمی دروازہ ہے۔ اس دروازے کی تعمیر بھی اکبر کے دور میں ہوئی۔ موچی دروازے کا قدیم نام موتی درواز تھا۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکبری عہد میں موتی رام جمعدار جو اکبر کا ملازم تھا ، تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر معمور رہا ۔ موتی رام بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھا۔ اپنے حسن اخلاق کے باعث وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھا۔ اس کی زندگی میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا تو اس نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی اور اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے میں داخل نہ ہونے دیا۔اسی کے نام کی نسبت سے یہ دروازہ موتی دروازہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔
کنہیا لال موچی دروازے کے بارے میں ’تاریخ لاہور‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ دورازہ موتی رام جمعدار ملازم اکبری کے نام سے موسوم ہے جو تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر تعینات رہا تھا۔ مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لئے موتی بن گیا۔ سکھی عہد میں موتی کے نام سے بدل کر موچی مشہور ہوا۔ اب بھی موچی دروازہ مشہور ہے۔ اس دروازے کے شرقی دالان میں ایک قبر چھوٹی سی زمانہ سلف کی پختہ بنی ہوئی موجود ہے۔ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہاں کسی شہید کا سر مدفون ہے‘‘
بعض مورخین کی رائے ہے کہ اس دروازے کو سکھ عہد میں مورچی دروازے کا نام دیا گیا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اندرون موچی دروازے میں ’مورچیوں‘ کا قیام بتائی جاتی ہے۔ اوائل مغل عہد میں یہاں مغل فوج کے پیادے قیام پذیر تھے اور اسی نسبت سے اس علاقے کے مختلف محلوں اور گلیوں کی تقسیم کی گئی جن میں محلہ تیر گراں، محلہ کمان گراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔
کئی آج اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دروازہ سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے اس لئے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کے عظیم الشان جلسے اور سیاسی احتجاج کی بڑی بڑی تحریک یہیں سے جنم لیتی رہی ہیں۔ موچی باغ تحریک پاکستان سے لے کر موجودہ تک سیاسی منظر نامے کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک ہند کے جن نامور سیاستدانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا ان میں علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی ، لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو،نواز شریف، شہباز شریف سمیت تمام اہم سیاست دان شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی تک کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر لگایا جاتا تھا۔ آج موچی باغ کے گرد کار پارکنگ اور میدان میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور دھوبیوں کے ناجائز قبصے سے اس کا حسن مانند پڑ رہا ہے اور سیاسی جلسے بھی شاز و نادر ہی منعقد ہوتے ہیں۔
انگریز دور حکومت میں جب فصیل شہر کی بلندی کم کے چند فٹ کی دیوار بنا دی گئی تو اس دروازے کے دونوں برجوں کو گرا کر اس کی اینٹیں فروخت کر دی گئیں۔ قرین قیاس تھا کہ انگریزی عہد میں اس دروازے کی بھی تعمیر نو ہوگی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ موچی دروازے کی از سر نو تعمیر نہیں ہو سکی اس لئے آج موچی دروازے کی عمارت کے آثار موجود نہیں ہیں نہ ہی اس دروازے کی عمارت کے بارے میں پرانی کتابوں میں حوالہ جات ملتے ہیں۔ لہذا اس کے فن تعمیر اور جمالیات کے بارے میں مورخ کسی قسم کی رائے کے اظہار سے قاصر ہیں۔ قیاس ہے کہ اس دروازے کی عمارت بھی لاہور کے بقیہ قدیم دروازوں کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتا ہوگا۔آج موچی دروازہ کے بائیں ہاتھ پر تھانہ موچی گیٹ کی نو تعمیر کثیر منزلہ عمارت موجود ہے اور بائیں جانب تھانہ رنگ محل کی عمارت ہے۔ دروازے کے بالکل ساتھ پیر مرادیہ کی قبر اور سبیل ہے۔ قبر پر دو قدیمی گھنے درختوں کا سایہ کیا ہوا ہے۔ تھانے کی عمارت سے چند قدم آگے بائیں جانب قدیم لال حویلی کی عمارت ہے۔
موچی دروازے کا علاقہ پتنگ سازی، خشک میوہ جات ، مٹھائیوں اور آتشباری کے سامان کا مرکز رہا ہے۔ بسنت پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب اس علاقے میں پتنگ سازی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ آتشبازی کے سامان کی چند ایک دوکانیں باقی ہیں۔ البتہ موچی دروازے کا بازار اب بھی بہت بارونق ہے۔ مٹھائیوں اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ علاقہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ بہترین فالودہ، لسی، باداموں والی برفی، مچھلی اور سیخ کباب اس علاقے کی خاص سوغات ہیں۔
موچی دروازے کا علاقہ پتنگ سازی، خشک میوہ جات ، مٹھائیوں اور آتشباری کے سامان کا مرکز رہا ہے۔ بسنت پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب اس علاقے میں پتنگ سازی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ آتشبازی کے سامان کی چند ایک دوکانیں باقی ہیں۔ البتہ موچی دروازے کا بازار اب بھی بہت بارونق ہے۔ مٹھائیوں اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ علاقہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ بہترین فالودہ، لسی، باداموں والی برفی، مچھلی اور سیخ کباب اس علاقے کی خاص سوغات ہیں۔
موچی دروازے کی وجہ شہرت مسجد صالح محمد کمبوہ بھی ہے۔ جونہی موچی دروازے کے اندر داخل ہوں تو چند قدم چلنے کے بعد بالکل سامنے تین گنبدوں والی یہ مسجد آنے والوں کو توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ یہ مسجد سڑک سے ایک منزل بلندی پر تعمیر کی گئی تھی۔ قدیم مسجد صالح محمد کمبوہ ہیکا شماراپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کے باعث مغلیہ دور کی اہم عمارات میں کیا جاتا ہے۔اکثر آیات قرانی اور احدیث و عبارات فارسی اس کی دیواروں پر نقش ہیں۔اس مسجد کی تعمیر منشی محمد صالح کمبوہ دیوان صوبہ پنجاب نے کروائی تھی۔ مسجد کی تعمیر 1659ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس مسجد کی کرسی اونچی ہے اور نیچے دوکانیں ہیں۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بازار کی زمین اونچی ہوگئی ہے اور دوکانوں نے نصف سے زائد زمین میں دھنس کر تہہ خانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دروازہ بھی چھوٹا سا رہ گیا ہے اور مسجد کی کرسی کی بلندی چار کی برابر رہ گئی ہے۔ اس مسجد کے مشرق میں صالح محمد کمبوہ نے اپنی حویلی بھی بنوائی تھی۔ صالح محمد کمبوہ نے شاہ جہان دور کی تاریخ ’’عمل صالح‘ تحریر کی تھی۔ مسجد کمبوہ کے ساتھ ہی اونچی مسجد بلال ہے جہاں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ و حفظ کی مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ کا نام جامعہ کریمیہ چشتیہ ہے۔ مسجد کمبوہ سے بائیں مڑ جائیں تو کوچہ لوہاراں آجاتا ہے جس آگے ملحقہ بازار صدا کاراں ہے اور اس کے بعد کوچہ تیر گراں آجاتا ہے جو شاہ عالمی بازار سے جا ملتا ہے۔
مسجد صالح کمبوہ سے دائیں جانب چلے جائیں تو کوچہ تکیہ سادھواں کے بعد کوچہ چابک سواراں آجاتا ہے جہاں 1671ء میں مسجد چینیاں والی تعمیر ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی حویلی میاں خان متصل ہے۔اس مسجد کا شمار بھی اندرون شہر کی قدیم مساجد میں ہوتا تھا۔
کنہیا لال قدیم مسجد چینیاں کے بارے میں اپنی تصنیف تاریخ لاہور میں لکھا ہے کہ ’’مسجد کا شرقی دروازہ نہایت عالی شان بنا ہوا تھا۔ بہ وقت زوالِ سلطنتِ چغتائی جب گھر گھر ہو گیا تو مسجد کے دروازے کی سلیں گوجر سنگھ نے اکھڑوا لیں۔ پتھر کی دہلیز، جو سنگ مر مر کی تھی، سوبھا سنگھ نے نکلوا لی، دروازہ مسجد منہدم ہوگیا۔ پہلے دروازے کی اینٹیں ۔ پھر زمین کسی طامع امام مسجد نے فروخت کر دی اور مسجد سے داخل ہونے کے لئے شمالی دیوار توڑ کر چھوٹا سا دروازہ نکال لیا تھا۔‘‘ مسجد کی شکستہ حالی کے سبب اس کی ازسر نو تعمیر کی گئی ۔ اس مسجد کے بانی شاہ جہاں بادشاہ کے فوجداری صوبہ لاہور نواب سرفراز خان المعروف افراز خان تھے۔ کچھ عرصہ قبل مسجد چینیاں والی کو دوبارہ گرا کر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔سکھوں کے عہد میں عربی خط کا استاد خلیفہ بگو نامہ موچی دروازے کے اندر محلہ کماں گراں میں رہتا تھا۔
مسجد صالح محمد کمبوہ سے اگر دائیں جانب مڑ جائیں تو امام بارگارہ سید اکبر علی شاہ آتا ہے اس کے ساتھ ہی آگے مشہور لال کھوہ کی عمارت کی بہت قدیمی عمارت ہے جس کی تعمیر نو 1977ء میں مستری جاوید چنیوٹی نے ضیا الدین بٹ کی مالی معاونت سے کی۔لال کھو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک کنواں ہوتا تھا جسے سکھ مذہب کے پیروکار مقدس سمجھتے تھے۔ لال کھو کی عمارت کے ساتھ بیری کا درخت ہے اور دیے جلانے کی مخصوص جگہ ہے جسے بیراں والی سرکار کہتے ہیں۔ لال کھوہ کی عمارت کے بالکل سامنے رفیق سویٹس کی دوکان ہے۔ یہیں پر مشہور فضل سوئیٹس بھی ہے۔ مزید آگے جائیں چوک نواب پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چوک نواب قزلباش کے نام سے منسوب ہے۔ قبل ازیں یہاں ایک شمشان گھاٹ تھا جسے ختم کر دیا گیا۔ اندرون موچی دروازہ مغلیہ عہد اور بعدکے ادوار میں بھی نوابوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں عظیم الشان اور کشادہ حویلیوں کی تعمیر کی گئی۔ جو آج بھی اس دور کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔
کنہیا لال ہندی نے شہر قدیم کے اندر حویلیوں کی کل تعداد چونسٹھ بتائی ہے جن میں سے سوائے چند ایک باقی سب کے محض نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ ان حویلیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اولین وہ حویلیاں جو عہد مغلیاں کی یاد تھیں اور سکھوں کے قبضہ میں آئیں اور دوسرے حصے میں ان حویلیوں کا تذکرہ ہوگا جو عہد سکھی میں ہی تعمیر ہوئیں اور ان کے معماروں نے حسب توفیق ظاہرہ خدوخال میں سکھ عہد کا تشخص اجاگر کرنے کی کمزور سی سعی کی۔
موچی دروازہ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں عہد مغلیہ دور کی کئی یادگار حویلیاں آج بھی موجود ہیں۔ نواب سعد اللہ خان مغل بادشاہ شاہ جہان وزیر تھا ۔ اس نے اپنی رہائش کے لئے اندرون موچی دروازہ میں حویلی میاں خان تعمیر کی جس کے تین درجے تھے ایک حویلی زنانہ، دوسری مردانہ جس کو رنگ محل بھی کہتے ہیں اور تیسرا قلعی خانہ تھا۔ کنہا لال حویلی میاں خان کے بارے میں بیان کرتے ہیں ’’جب یہاں سکھا شاہی زمانہ آیا اور اس حویلی کے وارث جا بجا نکل گئے تو لوگوں نے اسے گرانا شروع کر دیا جس کے ہاتھ میں کوئی عمارت آگئی، گرا کر لے گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی عملداری میں وارث اس حوالی کے آمود ہوئے اور انہوں نے لاکھوں روپے کی عمارت کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردیا۔‘‘ آج اس حویلی نے ایک محلے کی شکل اختیار کر لی ہے اور جہاں بیسیوں خاندان آباد ہیں۔ اندرون موچی دروازے میں نواب سعد اللہ خان کی دوسری حویلی ’’پتھراں والی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس حویلی میں کالا پتھر لگا ہوا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس حویلی کو بارود کا کارخانہ قائم کر دیا۔ ایک روز کسی سبب آگ بھڑک اٹھی اور کئی ہزار من بارود نے پورے علاقے کو تباہ کردیا۔ حویلی کی دیواریں کئی کئی کوس دور مکانوں کی چھتوں پر جا گریں۔ اس سانحے میں تقریباً دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آج اس حویلی کی عمارت کی جگہ گورنمنٹ سکول قائم ہے۔
اندرون موچی دروازے میں قائم مبارک حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حویلی کی بنیاد میر بہادرعلی، نادر علی اور بہار علی نے محمد شاہ بادشاہ کے دور میں رکھی تھی۔ جب حویلی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور وہ اس حویلی میں آکر آباد ہوئے تو اسی ماہ بہادر علی کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ اس تقریب نیک سے یہ حویلی مبارک حویلی کہلائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت جب شاہ شجاع الملک کابل سے بے دخل ہو کر آیا تو اسی حویلی میں قید کیا گیا اور اسی حویلی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع کو قید کر کے جواہر ’کوہ نور‘ اس سے چھین لیا۔ یہ حویلی سکھوں کے قبضہ میں رہی اور بعدازاں نواب علی رضا خان قزلباش کے ملکیت میں آگئی۔ کنہیا لال اس حویلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نواب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگی میں اس عمارت میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ مشرق کی جانب بڑا دروازہ نکلا اور بڑے بڑے دالان ، صحن اور عمارات بنوائی۔ نواب علی رضا خان قزلباش کے انتقال کے بعد ان کے جانشین نواب نوازش علی خان نے اس حویلی کی تعمیر و مرمت پر خصوصی توجہ دی۔ اس دور سے اس حویلی میں مجالس محرم منعقد کروانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مبارک حویلی سے متصل حویلی نثار حسین ہے۔ جہاں دس محرم کو لاہور میں تعزیہ، علم اور ذولجناح کا جلوس برآمد ہوتا ہے۔ قدیم دور سے ہی اندرون موچی دروازہ شعیان علی کا مرکز ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں دو سو کے قریب امام بارگاہیں ہیں۔ ان حویلیوں کے علاوہ حویلی تجمل شاہ، حویلی واجد علی شاہ اور اندھی حویلی کے نام سے مشہور حویلیاں بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔
شہر لاہور میں قدیم ادوار میں ولی اللہ اور برگذیدہ ہستیوں کے شہر کے دروازوں کے قریب اور اندرون شہر میں قیام کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔ اس کے علاوہ تکیوں کا رواج بھی قائم تھا۔ جہاں لوگ فارغ اوقات میں وقت گزارتے تھے۔ اندرون موچی دروازے اور شاہ عالمی دروازے کے دمیان پیر ڈھل کا مزار ہے اسی نسبت سے یہ علاوہ ڈھل محلہ کہلاتا ہے۔
اندرون موچی دروازے میں تکیہ سادھواں بھی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ تکیہ محلہ پیر گیلانیاں اور کوچہ چابک سواراں کے درمیان چینیاں والی مسجد کے قریب واقع ہے۔ اب یہاں تکیہ کے کوئی نشانات نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں کمشیری سادھو برادری کا تکیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ لوگ تجارت کرتے یا لوگوں کا علاج معالجہ کیا کرتے تھے اور ان کے گھوڑے اسی تکیے میں باندھے جاتے تھے۔ نور محمد سادھو 1226ء میں یہاں ایک مسجد تعمیر کردی اور اسی مسجد میں لاہور کے ایک بزرگ پیر غفار شاہ کا مزار بنایا گیا۔ بعد میں ان کے جانشین پیر اشرف شاہ نے ان کا جسد خاکی یہاں سے میانی کے قبرستان میں منتقل کر دیا۔ محلہ ساھواں میں مزار گنج شہیداں بھی واقع ہے اس مزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر اگرچہ ایک قبر ہے مگر اس کے نیچے ہزاروں شہید دفن ہیں۔
موچی دروازے کے باہر چیمبرلین روڈ کے واقع تکیہ تاجے شاہ کا شمار لاہور کے قدیم ترین تکیوں میں ہوتا ہے۔ یہ کبھی بارونق تکیہ ہوا کرتا تھا۔ بٹیروں کی بازی کے علاوہ اکھاڑے میں پہلوانوں کی کشتی اس تکیے کا خاصا تھا۔ تکیہ تاجے شاہ کے قریب ہی چیمبرلین روڈ پر تکیہ مراثیاں واقع ہے۔ پرانے وقتوں میں یہاں موسیقاروں اور گلوکاروں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ بھارت اور پاکستان کے بے شمار معروف فن کار یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ یہاں استاد فتح علی خان، علی بخش خان، غلام علی خان، قادر بخش، پیارے خں جیسے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ محرم الحرام میں بھی یہاں خصوصی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ پٹیالہ گھرانے کے عاشق علی خاں نے آخری عمر میں اپنے فن کا مظاہرہ یہیں کیا اور یہیں دفن ہوئے۔
، موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔یہاں کی تاریخی حویلیاں کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں
Tweet
incredibly sad to see such beautiful architecture going to waste. Sidra Rizvi
ReplyDeleteبہت خوب زبردست آرٹیکل اور تصاویر ہیں
ReplyDeleteazad
We must have to preserve our history.
ReplyDeletewhy our government Nt looking after historical buildings..they shd preserve them...
ReplyDeleteبہت معیاری انداز میں تاریخ بیان کی ہے۔ I appreciate your work you've enhanced our knowledge regarding our own country, we were unaware of.
ReplyDeleteWow! This blog looks just like my old one! It's on a entirely different subject but it has pretty much the same page layout and design. Outstanding choice of colors!
ReplyDeleteMy webpage > pisos embargados