Friday, February 10, 2012

Delhi Gate: The Royal Passage





گزرے تھے جس راہ سے شاہسوار کبھی۔۔۔

شہر قدیم کے دہلی دروازے کے تاریخی و ثقافتی پس منظر کے حوالے سے فیچر

Delhi Gate

لاہور کے دروازے اس کی شہر کی عظمت اور شان و شوکت کی گواہی دیتے ہیں۔ بلند و بالا فصیل کے حصار میں قائم یہ شہر زمانہ قدیم سے تاریخی و ثقافتی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس شہر نے عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔ مغلیہ دور سے لے کر سکھ دور حکومت اور نوآبادیاتی دور تک حکمرانوں کا مسکن یہ شہر رہا۔ اس شہر کے بارہ تاریخی دروازے اندرون شہر کا داخلی راستے تھے۔ یہ تمام دروازے ہر دور میں خاص اہمیت کے حامل رہے۔ انہی بارہ دروازوں میں سے ایک اہم دروازہ دہلی دروازہ ہے۔ 

دہلی دروازہ قدیم لاہور شہر کی فصیل کے مشرقی جانب واقع ہے۔ اس کے بائیں جانب اکبری دروازہ اور دائیں جانب یکی دروازہ ہے۔ جبکہ بیرونی جانب اس کے بالکل سامنے مسجد میلاد ہے جسے میلاد چوک کہا جاتا ہے۔ دہلی دروازے کی عمارت اور میلاد مسجد کا درمیانی حصہ گول باغ کا ہے جہاں پرانے وقتوں میں خندق ہوا کرتی تھی۔ لوہاری دروازے کے بعد شہر قدیم کا یہ سب سے اہم ترین دروازہ قرار پاتا ہے کیونکہ مغلیہ دور میں دہلی سے آنے والے شاہی قافلے اسی راستے سے لاہور شہر میں داخل ہوتے تھے۔ دہلی دروازہ کی تعمیر مغل شہشاہ اکبر کے دور میں ہوئی جب اس نے لاہور کو اپنا دارلحکومت بنایا تو شہر قدیم کی توسیع کے لئے شاہ عالمی اور مستی دروازے کی جانب سے بہت سارا رقبہ فصیل کے اندر شامل کر لیا گیا تھا۔ 

دہلی دروازے کے نام کی وجہ تسمیہ اس کا دہلی کی جانب کھلنا بتائی جاتی ہیں۔ اسی طرح قدیم دہلی شہر میں ایک دروازہ ’لاہوری دروازہ‘ کہلاتا ہے جس کا رخ لاہور کی جانب ہے۔ اس حوالے سے کنہیا لال اپنی تصنیف ’تاریخِ لاہور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ دروازہ مشرق کی سمت گویا شہر دہلی کی طرف ہے اس لئے اس کو دہلی دروازہ کہتے ہیں۔ لاہور کے نامی دروازوں میں سے یہ دروازہ ہے اور آمد و روفت لوگوں کی بہ کثرت ہے، کیونکہ اسی دروازے کے باہر اسٹیشن ریلوے بنایا گیا ہے اور اسی سمت کو بڑے بڑے شہر امرتسر و جالندھر وغیرہ ہیں۔ ریل پر سوار ہونے والے مسافر اور تجار سب اسی دروازے سے نکلتے ہیں اور جو باہر آتے ہیں وہ بھی اسی سے داخلِ شہر ہوتے ہیں۔ ‘‘
Shahi Hamam, Inside View

دہلی دروازہ قدیم دور سے اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ مغلیہ دور میں دہلی اور لاہور شہر کے مابین قریبی روابط رہے ہیں بعد ازاں شالامار، مغلپورہ اور باغبان پورہ کے آباد ہونے سے اس دروازے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وزرا اور امرا کے لئے کئی حویلیاں اور محل دہلی دروازے کے باہر تعمیر کئے گئے ۔ شاہ جہان کے زمانے میں مسجد وزیر خان اور شاہی حمام تعمیر کئے گئے جس سے اس علاقے میں سیاحوں کی دلچسپی بڑھی۔ شاہ جہان کے بیٹے دارا شکوہ نے لاہور میں قیام کے دوران بیرون دہلی دروازہ میں بے شمار عمارتیں تعمیر کروائیں۔ اس عہد میں اس جگہ کا نام چوک دارا پڑ گیا تھا۔ مغلوں کے عہد تک یہ تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ سکھوں نے یہاں کی عمارتیں اور دوکانیں تہس نہس کر دیں ۔ یہاں گھوڑوں کی بہت بڑی منڈی تھی جہاں افغانستان سے گھوڑے لا کر بیچے جاتے تھے۔ 
Wazir Khan Mosque

انگریز دور میں کابلی مل (1763-67ء) لاہور کا وائسرائے تھا اور سکھوں نے شہر پر قبضہ دہلی دروازے سے داخل ہو کر کیا تھا۔ 7 جولائی 1799ء کو مہاراجہ رنجیت سنگھ دہلی دروازے پر رانی سات کور نے اس کا استقبال کیا تھا اور رنجیت سنگھ کی فوج قدم بڑھاتی ہوئی انارکلی کی جانب روانہ ہوئی اور لاہور پر سکھوں کا اقتدار قائم ہوگیا تھا۔رنجیت سنگھ کا جب لاہور پر قابض ہوا تو دہلی دروازے کے باہر چوک دارا میں تعمیر عمارت کو گرا کر اس کی اینٹیں نئی عمارتوں میں استعمال کی گئیں۔ شیر سنگھ نے جب رانی چند کنور کے خلاف بغاوت کی تو اس کی فوجیں دہلی دروازے سے ہی شہر میں داخل ہوئی تھیں اور انہوں نے لوٹ مار کے بعد چھتہ بازار کو آگ لگا دی۔

انگریزی عہد میں دہلی دروازے کی پرانی عمارت خاصی خستہ حال ہو چکی تھی ۔ چھت بیٹھ جانے کی وجہ سے ہاتھیوں کا گزر نا ممکن نہ تھا۔ عمارت کی خستہ حالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو گرا کر ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ نئے گیٹ کی تعمیر کا ٹھیکہ محمد سلطان کو دیا گیا جس نے چوک دارا میں سرائے و دیگر عمارتوں کی تعمیر نو کی۔ 1860ء میں جب لاہور میں ریلوے لائن بچھائی گئی اور ریلوے اسٹیشن قائم ہوا تو ایک بار پھر دہلی دروازے کی اہمیت بڑھ گئی۔ یہیں سے ایک سڑک سیدھی میاں میر کی بستی کو جاتی تھی جہاں نئی چھاؤنی بنائی گئی تھی۔ مال روڈ کے علاوہ یہ سڑک میاں میر چھاؤنی کو قدیم شہر سے ملاتی تھی۔ انگریز دور میں دہلی دروازے کی عمارت کا آدھا حصہ پولیس کے زیر تصرف رہا تھا جو دروازے کی حفاظت پر مامور تھے جبکہ دیگر نصف حصہ میں مجسٹریٹ کی عدالت اور میونسپلٹی کے دفاتر تھے بعدازاں دہلی دروازے کے باہر کوتوالی بن گئی تو اس کے لئے نئی عمارت تعمیر کی گئی جو اب سی آئی اے کے زیر استعمال ہے۔ 

اس تاریخی دروازے کی اہمیت اور فن تعمیر کے حوالے سے غافر شہزاد اپنی کتاب ’گھر، گلیاں اور دروازے میں‘ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’فن تعمیر کے حوالے سے لوہاری دروازے کے بعد دہلی دروازے کی عمارت دیگر دروازوں کے مقابلے میں اہم ترین ہے۔ یہ اکبر عہد کی پرانی عمارت کی جگہ پر ہی تعمیر کی گئی، قرین قیاس یہی ہے۔ چونکہ مغل عہد میں بادشاہ اکبر، امراء و دیگر عہدیداران جو دہلی سے آتے تھے، اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوتے تھے لہذا دروازے کی عمارت بڑی اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔ دروازے کی قوس کا سائز قریباً لوہاری دروازے کے برابر ہے۔ درمیانی حصے میں ڈیوڑھی ہے جس کے دونوں اطراف تین تین کمرے ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام حصہ زیریں منزل پر ٹھوس ہے۔ دروازے کی اندرونی جانب دائیں اور بائیں دو اطراف سے سیڑھیاں بالائی منزل اور چھت تک جاتی ہیں۔ زیریں منزل پر واقع ہر دو اطراف تینوں کمروں میں دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ تینوں کمرے پیمائش میں مختلف ہیں۔ سامنے کی جانب واقع دونوں اطراف کے کمروں سے ایک ایک کھڑکی بیرونی جانب کھلتی ہے۔ یہی کمرے بالائی منزل پر قدرے بڑے اور پیمائش میں مناسب ہو جاتے ہیں جن کی پشت پر ایک طرف تو ہال بنا ہوا ہے اور دوسری طرف کھلی چھت ہے۔ ‘‘

غافر شہزاد مزید لکھتے ہیں کہ ’’دہلی دروازہ اپنے بیرونی منظر نامے میں انگریزی عہد کی عمارت جیسا لگتا ہے اور اگر بتایا نہ جائے تو دیکھنے والا شناخت نہیں کر سکتا کہ یہ لاہور کے اہم ترین دروازے کی عمارت ہے۔ جڑواں ستون اور ان میں کھڑکی کا انداز انگریزی عہد کی عمارت سے مماثلت رکھتا ہے البتہ راہگذر کی دوہری ڈاٹ، ایک کثیرالبرگی اور دوسری چہار نقطی، دونوں ہی مغلیہ عہد کی عمارت کے ساتھ اس کا ربط بناتی ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت دومنزلہ اونچی ہے۔ دیواریں اینٹوں سے بنائی گئی ہیں اور چھتوں کیلئے والٹ(vault)اور شہتیر دونوں استعمال کئے گئے ہیں۔ ایک پاشیب(ramp) جنوبی جانب سے بالائی چھت تک چلا جاتا ہے ۔ دیگر دروازوں کے برعکس دہلی دروازہ کا روکار بالکل مختلف ہے۔ عمارات کی اونچائی تقریباً اڑتیس فٹ اور مرکزی عمارت کی چوڑائی 105فٹ ہے‘‘ 
Chitta (White) Gate

دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دہلی بازار شروع ہو جاتا ہے جو مسجد وزیر خان کے چوک تک جاتا ہے ۔ دوسری جانب کشمیری بازار ہے جو چوک رنگ محل سے آکر اس چوک میں ختم ہوتا ہے۔ یہ بہت مصروف بازار ہے۔ دہلی دروازے کے اندر شمالی جانب محلہ قصاباں ہے جس کے ساتھ ملحقہ چنگڑ محلہ، کوچہ میاں غوث اور چوہٹہ قاضی اللّہ داد ہے۔ جو کبھی چوہٹی راجہ دینا ناتھ کہلاتا تھا۔ دہلی دروازے کی جنوبی جانب حمام وزیر خان، اکبری منڈی اور کھجور والی گلی واقع ہیں۔ 

دہلی درواز کی اہم تاریخی عمارتوں میں شاہی حمام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں شاہی خاندان اور شاہی مہمان یہاں غسل کیا کرتے تھے۔ شاہی حمام کی تعمیر لاہور کے گورنر نواب وزیر خان نے 1634ء میں کروائی تھی۔ اس کا کل رقبہ تقریباً 2000مربعہ فٹ ہے۔ اس مقام کو ایک ’ریزارٹ‘ کی سی حیثیت حاصل تھی جہاں بیرون شہر سے آنے والے شاہی مہمان شاہی قلعہ میں روانگی سے قبل غسل سے لطف اندور ہو کر تازہ دم ہوتے تھے۔شاہی حمام ایرانی اور ترکش فن تعمیر کا ایک حسین نمونہ ہے۔ فن تعمیر کا یہ انداز اسلامی دنیا میں بے حد مقبول ہے۔ شاہی حمام متعدد فواروں سے مزین تھا۔ جبکہ ٹھنڈے اور گرم پانی کی سہولت کے علاوہ آرام کے کمرے ، کپڑے تبدیل کرنے کا کمرے اور ’سٹیم باتھ‘ کی بھی سہولت میسر تھی۔ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث یہ عمارت خاصی خستہ حال ہو چکی تھی۔ 1991ء میں حکومت کی جانب سے اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی گئی جس سے اس کی حالت زار میں خاصی بہتر ہوئی ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی تصویری گیلری اور سیاحوں کے بیٹھنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ آج حمام وزیر خان کی عمارت تجاوزات کے پیچھے چھپی ہوئی ہے اور مسجد وزیر خان کی شمالی جانب کو بھی دوکانوں کی لمبی قطار نے چھپا رکھا ہے۔ شاہی حمام سے مسجد وزیر خان کی جانب جائیں تو 100میٹر کے فاصلے پر ’سفید گیٹ‘ واقع ہے۔ سفید گیٹ کے تاریخی پس منظر کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس گیت کے اوپر بھی کوئی تحریر آویزاں نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ چو ک وزیر خان سے کوتوالی کی جانب جانے کا داخلی راستہ ہے۔ اس عمارت کی حالت بھی نہایت خستہ ہے۔چوک کوتوالی کی جانب جاتے ہوئے سطح زمین اونچی ہے۔ یہاں موجود تمام پرانے مکان اب مارکیٹ اور دوکانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مسجد وزیر خان سے آگے چوک پرانی کوتوالی ہے جہاں سے ایک سڑک پاکستان کلاتھ مارکیٹ سے ہوتی ہوئی چونا منڈی بازار کی طرف نکل جاتی ہے جبکہ دوسری سڑک کشمیری بازار کہلاتی ہے جو سنہری مسجد پر منتج ہوتی ہے اور جس کی ساتھ ہی سوہا بازار اور کناری بازار واقع ہیں۔ اس سارے علاقے میں تجاویزات کی بھرمار کے باعث پیدل چلنے والوں کو بھی نہایت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ سیوریج کا نظام بھی انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔


 چونا منڈی چوک کے دائیں جانب بنگلہ ایوب روڈ ہے جو شیرانوالہ اور یکی دروازے کے جانب جاتی ہے۔ اسی سڑک پر مسجد مولانا احمد علی واقع ہے۔ یہیں پر سکھوں کا اہم گردوارہ ’گردارہ جنم استھان سری گرو رام داس جی‘ واقع ہے۔ گرو رام داس جی سکھ مذہب کے چوتھے گرو تھے اور امرتسر شہر انہوں نے ہی آباد کیا گیا۔ یہ گرودوارہ ماضی میں سکھوں کے لئے خاص توجہ کا مرکز رہا تھا اوریہاں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی حاضری دیتے تھے۔ کنہیا لال ’تاریخ لاہور‘ میں اس گرودوارے کی عظمت اور شان و شوکت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’سکھ لوگ اس متبرک مکان کا کمال ادب کرتے ہیں اور عام و خاص ہندو بھی پرستش کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ اور اس جگہ کو نہایت پاک تصور کرتے ہیں جس مقام پر گرو رام داس صاحب مذہب سکّھی کے جانشینِ چہارم کا جنم ہوا تھا، یعنی وہ اسی جگہ پیدا ہوئے اور اسی جگہ پرورش پائی ۔ خاص جائے سکونت گرو رام داس کے ماں باپ کی اس جگہ پر تھی۔ پھر یہ سببِ انقلاب زمانہ لاہور سے نکل کر گوبندوال میں جا رہے جس جگہ گرو امر داس تیسرا جانشین قیام پذیر تھا۔‘‘ آج اس گردوارے کی حالت دیگر مندروں اور گردواروں سے خاصی بہتر ہے اور ہر سال ہزاروں سکھ یاتری یہاں زیارت کے لئے آتے ہیں۔ 
Sunehri Masjid (Golden Mosque)

دہلی دروازے کا داخلی راستہ اور ملحقہ بازاروں کا سارا علاقہ رڑہ گزر کہلاتا تھا اور یہ وہی علاقہ ہے جو اکبر نے شہر قدیم کی توسیع کے وقت شہر پناہ میں شامل کیا تھا۔ اندرون دہلی بازار کا علاقہ چوک وزیر خان اور مسجدوزیر خان کی موجودگی میں خاصا منفرد ہو جاتا ہے۔ مسجد مریم زمانی جو کہ یکی دروازے کے اندر واقع ہے، اس کی تعمیر کے بعد مسجد وزیر خان تعمیر کی گئی جو شہر قدیم کی سب سے بڑی اور اہم مسجد ہے۔ یہ مسجد وزیر خان نے 1634ء میں تعمیر کروائی تھی۔ یہ فصیل شہر میں واقع سب سے بڑی مسجد ہے۔ مسجد کے مشرقی جانب ایک بڑا میدان ہے جو مختلف نوعیت کی سرگرمیوں اور اجتماعات کے لئے استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مسجد کے چار بلندو بالا خوبصورت مینار اس کی خاص شان و شوکت کا   اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس مسجد کی حالت زار خاصی خستہ ہو چکی ہے۔ جس کی بحالی کا کام کیا جارہا ہے۔

اس مسجد کے مشرقی داخلی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دوکانوں کا ایک سلسلہ ہے جو کبھی کتابت و اشاعت و جلد سازی کے کاروبار سے متعلق دوکانداروں کو کرائے پر دی جاتی تھیں۔مسجد کے مشرقی جانب وزیر خان چوک سیاسی و سماجی، علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ مسجد وزیر خان کے صحن کے وسط میں سید اسحاق گاذرونی المشہور میراں بادشاہ کا مزار واقع ہے۔ ان بزرگ کی قبر تہہ خانے میں واقع ہے اور زینہ اتر کر وہاں جا سکتے ہیں جبکہ اس کے اوپر ایک چاردیواری بنائی گئی ہے۔ یہ قبر مسجد کی تعمیر سے قبل موجود تھی۔ جب نواب وزیر خان نے مسجد تعمیر کروائی تو اس کو بدستور قائم رکھا بلکہ اس مزار کو اپنی مسجد کی زینت تصور کیا۔ حیرت انگیز طور پر سکھ دور حکومت میں بھی یہ مسجد سکھوں کی دست برد سے حفاظت میں رہی۔ مسجد وزیر خان کے نواح میں دو اور بزرگوں کے مزارات بھی ہیں۔ ان میں مقبرہ امام غلام محمد المشہور امام گاموں اور مقبرہ سید صوف شامل ہیں۔ امام گاموں کا مقبرہ مسجد وزیر خان کے متعلقہ مکانات سے ہے۔ امام غلام محمد اس مسجد کے امام ، عالم اور سلسلہ قادریہ کے فقیر تھے۔ ان کی وفات کے بعد انہیں مسجد کی جنوبی دیوار کے باہر دفن کیا گیا تھا۔ مسجد وزیر خان کے بیرونی چوک میں کلاں مسجد واقع ہے جہاں بزرگ دین سید صوف کا مقبرہ ہے۔ انگریز دور میں جب چوک کے اندرونی مکانات گرائے گئے اور اسے چوک کی شکل دی گئی تو ٹھیکیدار محمد سلطان نے بزرگ سید صوف کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ یہ قبر بھی مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں موجود تھی۔ صاحب مزار کو سید اسحاق گاذرونی کا ہم عہد اور ہم مجلس کہا جاتا ہے۔ اندرون دہلی دروازے کی ایک اور اہم مزار سید سربلند کا ہے۔ جو مسجد وزیر خان کے شمالی جانب بازار میں واقع ہے۔ یہ کٹرہ بھی نواب وزیر خان نے تعمیر کروایا تھا اور مسجد کے نام وقف کر دیا تھا۔ یہ بزرگ بھی سید اسحاق گاذرونی کے دوستوں اور ہم نشینوں میں شمار ہوتے تھے۔ 
Gurdwara Janam Asthan Ramdas Ji

اندرون دہلی دروازے کی اہم تاریخی عمارتوں میں کشمیری بازار میں واقع سنہری مسجد منفرد مقام کی حامل ہے۔ اسے مغل بادشاہ محمد شاہ کے دور میں نواب سید بھکاری خان نے 1753ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اس مسجد کے تین سنہری گنبد اس مسجد کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ مسجد شہر قدیم کی دیگر قدیم مساجد کی طرح سطح زمین سے بلند پر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ زمین سے تقریباً گیارہ فٹ بلندی پر ہے ۔ قدیم زمانے میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر مساجد کو سطح زمین سے بلندتعمیر کیا جاتا تھا۔ دیگر تاریخی عمارات کی طرح یہ عمارت بھی انتظامیہ کی لاپرواہی کے باعث خستہ حالی کا شکار ہو رہی ہے۔ 
اندرون دہلی دروازے میں محلہ چنگڑاں میں مسجد قدیمہ بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مسجد نواب وزیر خان کی عمارت کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا اندرونی حصہ بھی نہایت پست ہے اور مٹی سے بھرائی کر کے اونچا کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی حالت زار بھی نہایت خستہ ہو رہی ہے۔ 

حکومت پنجاب نے اندرون شہر کی ثقافت اور تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے ایک باقاعدہ پروگرام کا آغاز کیا ہے تاکہ ان تاریخی مقامات کو اس کی اصل شکل میں بحال رکھا جائے۔ اس ضمن میں ورلڈ بنک اور آغا خان ٹرسٹ کے تعاون سے ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ آف والڈ سٹی لاہور پراجیکٹ‘ کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق دہلی دروازے سے شاہی قلعے تک جانے والی تقریباً دو کلومیٹر لمبی شاہی گزر گاہ کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا۔ اس راستے میں شاہی حمام، مسجد وزیر خان، سنہری مسجد اور مسجد مریم زمانی جیسی تاریخی عمارات اور مساجد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ علاوہ ازیں قدیم حویلیوں اور عمارات کے جھروکوں اور سامنے والے حصے کو بھی تجاوزات سے پاک کیا جائے گا۔ اس پروگرام میں ٹیلفون اور بجلی کی تاروں کو بھی زیر زمین پھیلانے کا منصوبہ شامل ہے۔ 
Kashmiri Bazaar

تجارت کے حوالے سے اندرون دہلی دروازے کا سارا علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پاکستان کلاتھ مارکیٹ اور اعظم کلاتھ مارکیٹ جیسی بڑی کپڑے کی مارکیٹیں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ دروازے کے بیرونی حصے سے لے کر کے چوک رنگ محل تک تجاوزات کی بھرمار ہے۔ جس سے اس سارے علاقے کا حسن مانند پڑ چکا ہے۔ تجاوزات کے باعث بازاروں کی چوڑائی محض چند فٹ رہ گئی جس کے باعث اس سارے علاقے میں ٹریفک کے بہت زیادہ مسائل ہیں۔ امید ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے اندرون شہر کے تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کا پروگرام احسن طریقے سے سرانجام دیا جائے تو سیاحوں کی دلچسپی بھی اس علاقے بھی مزید بڑھے گی اور ہمارا تاریخی و ثقافتی ورثہ بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہونے 
سے محفوظ رہے گا۔