Monday, September 17, 2012

Life is Good - A little-known story







*message tone*
*picks up iPhone and checks text*
“Hey Buddy! Where are you lost?” *friend pings*
The AC wasn’t working; he overate–but then, the food was awesome–he felt it's hotter than usual –Damn! The Net's down…
*curses Rehman Malik*
“Hey, I am good, whassup?” 
Friend– “Do you know 300 people have died in Karachi, some fire incident in a factory? Haven’t seen you on twitter for a while also”
“OMG! Really?  My internet is down, haven’t checked twitter”
He doesn’t feel like switching on the TV.
Friend–  “Yeah man, poor souls. Heard some Bhatta Mafias were also involved”
“BC. These bad asses. We must do something about those poor people. Khair aur sunaa?”
Friend–  “Sab set!”
“What’s going on at the twitterverse nowadays?”
 *continues texting*
Friend–  “Same shit happening. PTI Trolls. PPP Jyalas. N League k Noorey. And then wohee Elitiye signing petitions. Lol”
hahaha. Kuch nahin badalne wala [Nothing will change]”– he was surely missing some fun.
Friend– “So true man, what else?”
He guessed it was end of the discussion and he was bored to his teeth. This humid weather was killing him. He looked towards the AC, which seemed to stare at him with a poker face; he picked up the phone to text back...
“You were telling about some fire incident? What happened?”
Friend–  “Dunno much. Some garment factory. Fire broke out and peeps were caught inside. Some 300 died, they say”
“hmmm… that's it?”
He was expecting something more from him, some "masala" story….
Friend–  “O Yea! Arab Spring hit the Arab world once again, hardly anything tho'....this time”
“What? What happened now?”
That seemed interesting.
Friend– “Man, some Jew made a blasphemous film. Protests all over the Arab world, heard of some in Pakistan too”
“Oh man, that blasphemer should be hanged to death, how does someone dare to do that”
*blood boils*
Friend– “Exactly man! A US ambassador has also been murdered. Yo!”
Yeh Cheez, SaloN ko sabaq sikhaana chahiye [That’s the way. We should teach a lesson to those rascals.]”
*feels happy deep inside*
“Do you know about the protest organized in solidarity with Karachi fire victims? Should we go?”
What the hell is he talking about–he thought.  “Itni garmi mein? [In this heat?] Nah man! I have some better things to do,” he replied.
Friend– “Aur sunaa”
“Nothing much, why don’t you come over? Will watch some shit, suna hai TDKR's cool”
Friend– “Man, sorry, am invited at a do.. .Nadeem ka pata hai na? Dude's b'day bash at his joint tonight. Full on scene hai”
“Chal okay”
.........
"Sala C****iya"
*looks at iPhone and grumbles*
He stared hard at the AC; may be it ‘LOLed’ at him?
He turned to the Lappie but the modem’s light was still red.
"F**k!"
He lifted his weight and waddled into the lounge.
He stopped in front of the fridge and picked up a Pepsi.
He switched the TV on and fiddled with the remote–flicking channels.
"Ah! ManU"
His favorite club played against some random FC… LIVE…
The AC sprang back to life...slowly purring...blowing cool air into the room...he felt sleepy...
"Van Parsie's rocking man!"
*mumbles*
Life was good....




Thursday, September 6, 2012

Mochi Gate of Walled City of Lahore





Nawab Chowk, interior Mochi Gate. Photo by Furhan Hussain


شہر ایک بار پھر بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہا۔ اس بارحملہ آوروں نے شہر کے جنوب سے حملہ کیا لیکن دربان شہر کی جرات مندی اور کامیاب حکمت عملی سے فوجیں شہر میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ شہنشاہ وقت جلال الدین اکبر نے اپنے دربان موتی رام کو انعام کے طور پر شہر کے جنوبی سمت کھلنے والے دروازے کا نام عطا کر دیا۔ شہر میں منادی کروادی گئی کہ جنوبی رخ میں کھلنے  والا دروازہ  ’موتی دروازہ‘ کہلائے گا۔ جسے بعدازاں موچی دروازہ کہا جانے لگا۔ 

Old Architecture, Nawab Chowk, Mochi gate area


شہر قدیم کا موچی دروازہ جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کے دائیں جانب اکبری دروازہ اور بائیں جانب شاہ عالمی دروازہ ہے۔ اس دروازے کی تعمیر بھی اکبر کے دور میں ہوئی۔ موچی دروازے کا قدیم نام موتی درواز تھا۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکبری عہد میں موتی رام جمعدار جو اکبر کا ملازم تھا ، تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر معمور رہا ۔ موتی رام بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھا۔ اپنے حسن اخلاق کے باعث وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھا۔ اس کی زندگی میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا تو اس نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی اور اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے میں داخل نہ ہونے دیا۔اسی کے نام کی نسبت سے یہ دروازہ موتی دروازہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

Interior Mochi gate area


کنہیا لال موچی دروازے کے بارے میں ’تاریخ لاہور‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ دورازہ موتی رام جمعدار ملازم اکبری کے نام سے موسوم ہے جو تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر تعینات رہا تھا۔ مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لئے موتی بن گیا۔ سکھی عہد میں موتی کے نام سے بدل کر موچی مشہور ہوا۔ اب بھی موچی دروازہ مشہور ہے۔ اس دروازے کے شرقی دالان میں ایک قبر چھوٹی سی زمانہ سلف کی پختہ بنی ہوئی موجود ہے۔ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہاں کسی شہید کا سر مدفون ہے‘‘


بعض مورخین کی رائے ہے کہ اس دروازے کو سکھ عہد میں مورچی دروازے کا نام دیا گیا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اندرون موچی دروازے میں ’مورچیوں‘ کا قیام بتائی جاتی ہے۔ اوائل مغل عہد میں یہاں مغل فوج کے پیادے قیام پذیر تھے اور اسی نسبت سے اس علاقے کے مختلف محلوں اور گلیوں کی تقسیم کی گئی جن میں محلہ تیر گراں، محلہ کمان گراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔

He is sleeping, I guess

کئی آج اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دروازہ سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے اس لئے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کے عظیم الشان جلسے اور سیاسی احتجاج کی بڑی بڑی تحریک یہیں سے جنم لیتی رہی ہیں۔ موچی باغ تحریک پاکستان سے لے کر موجودہ تک سیاسی منظر نامے کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک ہند کے جن نامور سیاستدانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا ان میں علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی ، لیاقت علی خان، ذولفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو،نواز شریف، شہباز شریف سمیت تمام اہم سیاست دان شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی تک کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر لگایا جاتا تھا۔ آج موچی باغ کے گرد کار پارکنگ اور میدان میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور دھوبیوں کے ناجائز قبصے سے اس کا حسن مانند پڑ رہا ہے اور سیاسی جلسے بھی شاز و نادر ہی منعقد ہوتے ہیں۔

Mochi Ground.

انگریز دور حکومت میں جب فصیل شہر کی بلندی کم کے چند فٹ کی دیوار بنا دی گئی تو اس دروازے کے دونوں برجوں کو گرا کر اس کی اینٹیں فروخت کر دی گئیں۔ قرین قیاس تھا کہ انگریزی عہد میں اس دروازے کی بھی تعمیر نو ہوگی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ موچی دروازے کی از سر نو تعمیر نہیں ہو سکی اس لئے آج موچی دروازے کی عمارت کے آثار موجود نہیں ہیں نہ ہی اس دروازے کی عمارت کے بارے میں پرانی کتابوں میں حوالہ جات ملتے ہیں۔ لہذا اس کے فن تعمیر اور جمالیات کے بارے میں مورخ کسی قسم کی رائے کے اظہار سے قاصر ہیں۔ قیاس ہے کہ اس دروازے کی عمارت بھی لاہور کے بقیہ قدیم دروازوں کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتا ہوگا۔آج موچی دروازہ کے بائیں ہاتھ پر تھانہ موچی گیٹ کی نو تعمیر کثیر منزلہ عمارت موجود ہے اور بائیں جانب تھانہ رنگ محل کی عمارت ہے۔ دروازے کے بالکل ساتھ پیر مرادیہ کی قبر اور سبیل ہے۔ قبر پر دو قدیمی گھنے درختوں کا سایہ کیا ہوا ہے۔ تھانے کی عمارت سے چند قدم آگے بائیں جانب قدیم لال حویلی کی عمارت ہے۔

موچی دروازے کا علاقہ پتنگ سازی، خشک میوہ جات ، مٹھائیوں اور آتشباری کے سامان کا مرکز رہا ہے۔ بسنت پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب اس علاقے میں پتنگ سازی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ آتشبازی کے سامان کی چند ایک دوکانیں باقی ہیں۔ البتہ موچی دروازے کا بازار اب بھی بہت بارونق ہے۔ مٹھائیوں اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ علاقہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ بہترین فالودہ، لسی، باداموں والی برفی، مچھلی اور سیخ کباب اس علاقے کی خاص سوغات ہیں۔

Ruined Heritage

موچی دروازے کی وجہ شہرت مسجد صالح محمد کمبوہ بھی ہے۔ جونہی موچی دروازے کے اندر داخل ہوں تو چند قدم چلنے کے بعد بالکل سامنے تین گنبدوں والی یہ مسجد آنے والوں کو توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ یہ مسجد سڑک سے ایک منزل بلندی پر تعمیر کی گئی تھی۔ قدیم مسجد صالح محمد کمبوہ ہیکا شماراپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کے باعث مغلیہ دور کی اہم عمارات میں کیا جاتا ہے۔اکثر آیات قرانی اور احدیث و عبارات فارسی اس کی دیواروں پر نقش ہیں۔اس مسجد کی تعمیر منشی محمد صالح کمبوہ دیوان صوبہ پنجاب نے کروائی تھی۔ مسجد کی تعمیر 1659ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس مسجد کی کرسی اونچی ہے اور نیچے دوکانیں ہیں۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بازار کی زمین اونچی ہوگئی ہے اور دوکانوں نے نصف سے زائد زمین میں دھنس کر تہہ خانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دروازہ بھی چھوٹا سا رہ گیا ہے اور مسجد کی کرسی کی بلندی چار کی برابر رہ گئی ہے۔ اس مسجد کے مشرق میں صالح محمد کمبوہ نے اپنی حویلی بھی بنوائی تھی۔ صالح محمد کمبوہ نے شاہ جہان دور کی تاریخ ’’عمل صالح‘ تحریر کی تھی۔ مسجد کمبوہ کے ساتھ ہی اونچی مسجد بلال ہے جہاں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ و حفظ کی مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ کا نام جامعہ کریمیہ چشتیہ ہے۔ مسجد کمبوہ سے بائیں مڑ جائیں تو کوچہ لوہاراں آجاتا ہے جس آگے ملحقہ بازار صدا کاراں ہے اور اس کے بعد کوچہ تیر گراں آجاتا ہے جو شاہ عالمی بازار سے جا ملتا ہے۔


مسجد صالح کمبوہ سے دائیں جانب چلے جائیں تو کوچہ تکیہ سادھواں کے بعد کوچہ چابک سواراں آجاتا ہے جہاں 1671ء میں مسجد چینیاں والی تعمیر ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی حویلی میاں خان متصل ہے۔اس مسجد کا شمار بھی اندرون شہر کی قدیم مساجد میں ہوتا تھا۔

Balcony, Haveli Wajid Ali Shah


کنہیا لال قدیم مسجد چینیاں کے بارے میں اپنی تصنیف تاریخ لاہور میں لکھا ہے کہ ’’مسجد کا شرقی دروازہ نہایت عالی شان بنا ہوا تھا۔ بہ وقت زوالِ سلطنتِ چغتائی جب گھر گھر ہو گیا تو مسجد کے دروازے کی سلیں گوجر سنگھ نے اکھڑوا لیں۔ پتھر کی دہلیز، جو سنگ مر مر کی تھی، سوبھا سنگھ نے نکلوا لی، دروازہ مسجد منہدم ہوگیا۔ پہلے دروازے کی اینٹیں ۔ پھر زمین کسی طامع امام مسجد نے فروخت کر دی اور مسجد سے داخل ہونے کے لئے شمالی دیوار توڑ کر چھوٹا سا دروازہ نکال لیا تھا۔‘‘ مسجد کی شکستہ حالی کے سبب اس کی ازسر نو تعمیر کی گئی ۔ اس مسجد کے بانی شاہ جہاں بادشاہ کے فوجداری صوبہ لاہور نواب سرفراز خان المعروف افراز خان تھے۔ کچھ عرصہ قبل مسجد چینیاں والی کو دوبارہ گرا کر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔سکھوں کے عہد میں عربی خط کا استاد خلیفہ بگو نامہ موچی دروازے کے اندر محلہ کماں گراں میں رہتا تھا۔


مسجد صالح محمد کمبوہ سے اگر دائیں جانب مڑ جائیں تو امام بارگارہ سید اکبر علی شاہ آتا ہے اس کے ساتھ ہی آگے مشہور لال کھوہ کی عمارت کی بہت قدیمی عمارت ہے جس کی تعمیر نو 1977ء میں مستری جاوید چنیوٹی نے ضیا الدین بٹ کی مالی معاونت سے کی۔لال کھو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک کنواں ہوتا تھا جسے سکھ مذہب کے پیروکار مقدس سمجھتے تھے۔ لال کھو کی عمارت کے ساتھ بیری کا درخت ہے اور دیے جلانے کی مخصوص جگہ ہے جسے بیراں والی سرکار کہتے ہیں۔ لال کھوہ کی عمارت کے بالکل سامنے رفیق سویٹس کی دوکان ہے۔ یہیں پر مشہور فضل سوئیٹس بھی ہے۔ مزید آگے جائیں چوک نواب پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چوک نواب قزلباش کے نام سے منسوب ہے۔ قبل ازیں یہاں ایک شمشان گھاٹ تھا جسے ختم کر دیا گیا۔ اندرون موچی دروازہ مغلیہ عہد اور بعدکے ادوار میں بھی نوابوں کا مسکن رہا ہے۔ یہاں عظیم الشان اور کشادہ حویلیوں کی تعمیر کی گئی۔ جو آج بھی اس دور کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔

Haveli Wajid Ali Shah

کنہیا لال ہندی نے شہر قدیم کے اندر حویلیوں کی کل تعداد چونسٹھ بتائی ہے جن میں سے سوائے چند ایک باقی سب کے محض نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ ان حویلیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اولین وہ حویلیاں جو عہد مغلیاں کی یاد تھیں اور سکھوں کے قبضہ میں آئیں اور دوسرے حصے میں ان حویلیوں کا تذکرہ ہوگا جو عہد سکھی میں ہی تعمیر ہوئیں اور ان کے معماروں نے حسب توفیق ظاہرہ خدوخال میں سکھ عہد کا تشخص اجاگر کرنے کی کمزور سی  سعی کی۔


موچی دروازہ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں عہد مغلیہ دور کی کئی یادگار حویلیاں آج بھی موجود ہیں۔ نواب سعد اللہ خان مغل بادشاہ شاہ جہان وزیر تھا ۔ اس نے اپنی رہائش کے لئے اندرون موچی دروازہ میں حویلی میاں خان تعمیر کی جس کے تین درجے تھے ایک حویلی زنانہ، دوسری مردانہ جس کو رنگ محل بھی کہتے ہیں اور تیسرا قلعی خانہ تھا۔ کنہا لال حویلی میاں خان کے بارے میں بیان کرتے ہیں ’’جب یہاں سکھا شاہی زمانہ آیا اور اس حویلی کے وارث جا بجا نکل گئے تو لوگوں نے اسے گرانا شروع کر دیا جس کے ہاتھ میں کوئی عمارت آگئی، گرا کر لے گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی عملداری میں وارث اس حوالی کے آمود ہوئے اور انہوں نے لاکھوں روپے کی عمارت کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کردیا۔‘‘ آج اس حویلی نے ایک محلے کی شکل اختیار کر لی ہے اور جہاں بیسیوں خاندان آباد ہیں۔ اندرون موچی دروازے میں نواب سعد اللہ خان کی دوسری حویلی ’’پتھراں والی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس حویلی میں کالا پتھر لگا ہوا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس حویلی کو بارود کا کارخانہ قائم کر دیا۔ ایک روز کسی سبب آگ بھڑک اٹھی اور کئی ہزار من بارود نے پورے علاقے کو تباہ کردیا۔ حویلی کی دیواریں کئی کئی کوس دور مکانوں کی چھتوں پر جا گریں۔ اس سانحے میں تقریباً دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آج اس حویلی کی عمارت کی جگہ گورنمنٹ سکول قائم ہے۔

Narrow bazaar in a street of interior Mochi gate
اندرون موچی دروازے میں قائم مبارک حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حویلی کی بنیاد میر بہادرعلی، نادر علی اور بہار علی نے محمد شاہ بادشاہ کے دور میں رکھی تھی۔ جب حویلی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور وہ اس حویلی میں آکر آباد ہوئے تو اسی ماہ بہادر علی کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ اس تقریب نیک سے یہ حویلی مبارک حویلی کہلائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت جب شاہ شجاع الملک کابل سے بے دخل ہو کر آیا تو اسی حویلی میں قید کیا گیا اور اسی حویلی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع کو قید کر کے جواہر ’کوہ نور‘ اس سے چھین لیا۔ یہ حویلی سکھوں کے قبضہ میں رہی اور بعدازاں نواب علی رضا خان قزلباش کے ملکیت میں آگئی۔ کنہیا لال اس حویلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نواب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگی میں اس عمارت میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ مشرق کی جانب بڑا دروازہ نکلا اور بڑے بڑے دالان ، صحن اور عمارات بنوائی۔ نواب علی رضا خان قزلباش کے انتقال کے بعد ان کے جانشین نواب نوازش علی خان نے اس حویلی کی تعمیر و مرمت پر خصوصی توجہ دی۔ اس دور سے اس حویلی میں مجالس محرم منعقد کروانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مبارک حویلی سے متصل حویلی نثار حسین ہے۔ جہاں دس محرم کو لاہور میں تعزیہ، علم اور ذولجناح کا جلوس برآمد ہوتا ہے۔ قدیم دور سے ہی اندرون موچی دروازہ شعیان علی کا مرکز ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں دو سو کے قریب امام بارگاہیں ہیں۔ ان حویلیوں کے علاوہ حویلی تجمل شاہ، حویلی واجد علی شاہ اور اندھی حویلی کے نام سے مشہور حویلیاں بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔

شہر لاہور میں قدیم ادوار میں ولی اللہ اور برگذیدہ ہستیوں کے شہر کے دروازوں کے قریب اور اندرون شہر میں قیام کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔ اس کے علاوہ تکیوں کا رواج بھی قائم تھا۔ جہاں لوگ فارغ اوقات میں وقت گزارتے تھے۔ اندرون موچی دروازے اور شاہ عالمی دروازے کے دمیان پیر ڈھل کا مزار ہے اسی نسبت سے یہ علاوہ ڈھل محلہ کہلاتا ہے۔

اندرون موچی دروازے میں تکیہ سادھواں بھی خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ تکیہ محلہ پیر گیلانیاں اور کوچہ چابک سواراں کے درمیان چینیاں والی مسجد کے قریب واقع ہے۔ اب یہاں تکیہ کے کوئی نشانات نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں کمشیری سادھو برادری کا تکیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ لوگ تجارت کرتے یا لوگوں کا علاج معالجہ کیا کرتے تھے اور ان کے گھوڑے اسی تکیے میں باندھے جاتے تھے۔ نور محمد سادھو 1226ء میں یہاں ایک مسجد تعمیر کردی اور اسی مسجد میں لاہور کے ایک بزرگ پیر غفار شاہ کا مزار بنایا گیا۔ بعد میں ان کے جانشین پیر اشرف شاہ نے ان کا جسد خاکی یہاں سے میانی کے قبرستان میں منتقل کر دیا۔ محلہ ساھواں میں مزار گنج شہیداں بھی واقع ہے اس مزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر اگرچہ ایک قبر ہے مگر اس کے نیچے ہزاروں شہید دفن ہیں۔

Muharram Juloos. Photo Courtesy: The Nation
موچی دروازے کے باہر چیمبرلین روڈ کے واقع تکیہ تاجے شاہ کا شمار لاہور کے قدیم ترین تکیوں میں ہوتا ہے۔ یہ کبھی بارونق تکیہ ہوا کرتا تھا۔ بٹیروں کی بازی کے علاوہ اکھاڑے میں پہلوانوں کی کشتی اس تکیے کا خاصا تھا۔ تکیہ تاجے شاہ کے قریب ہی چیمبرلین روڈ پر تکیہ مراثیاں واقع ہے۔ پرانے وقتوں میں یہاں موسیقاروں اور گلوکاروں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ بھارت اور پاکستان کے بے شمار معروف فن کار یہاں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ یہاں استاد فتح علی خان، علی بخش خان، غلام علی خان، قادر بخش، پیارے خں جیسے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ محرم الحرام میں بھی یہاں خصوصی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ پٹیالہ گھرانے کے عاشق علی خاں نے آخری عمر میں اپنے فن کا مظاہرہ یہیں کیا اور یہیں دفن ہوئے۔

، موچی دروازے کا علاقہ قدیم دور سے ثقافت اور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔یہاں کی تاریخی حویلیاں کھانے، محلے اور بازار قدیم ادوار میں اس علاقے کی خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں




Sunday, September 2, 2012

Exclusive Interview: Onir sees good times ahead for Indian parallel cinema





Onir sees good times ahead for Indian parallel cinema


Director and writer of My Brother... Nikhil talks exclusively to The Rationale

[This interview was originally published in The Rationale, August 2012 Issue]


Photo Source: Onir's Facebook page 

Onir is a rising star in the world of parallel cinema in India. Bollywood, which is full of glamour and a galaxy of shimmering stars, he decided to make his career in the art films, which is passing through a critical phase in India and all over the world.

Wikipedia says Onir was born as Anirban Dhar in Thimphu, Bhutan. His father Aparesh Dhar and mother Manjushree are of Bengali origin. Onir spent much of his childhood going to the cinema. In 1986 his family left Bhutan after the government made “driglam namzha”, the Bhutanese national dress and etiquette code, as mandatory. Onir revealed in an interview that, “I didn't want to be a second class Bhutanese citizen; I preferred to be Indian citizen.”

In Kolkata, Onir studied comparative literature and took a few film classes at Chitrabani Film School. He graduated from Jadavpur University in 1989, but left before getting his post-graduate degree when he received a scholarship to study films in Berlin. He later returned to India and worked as an editor, scriptwriter, art director, music album producer and song/music video director. He also served as an assistant to Kalpana Lajmion on Daman: A Victim of Marital Violence (2001) where he had his first experience directing a full-length feature film.

Recently Onir visited Karachi, Pakistan to attend India Pakistan Social Media Conference 2012, where this scribe talked to Onir about his career, filmmaking and new trends in India and world cinema.

Q. When did you realise that filmmaking could be your career?

Onir: My parents were teachers in Bhutan. I grew up watching lots of movies as my mother Manjushree was a film fan. My parents exposed me to both mainstream and art house cinema at an early age. By the time I was in eighth grade, I was in love with films of Shyam Benegal and Satyajit Ray and knew this would be my world.

Poster of film 'I Am'

Q. How has Indian audience received “I Am”. What is the future of short films in India?

Onir: The film was one of the most highly rated films of 2011 and went on to win the National Award as the Best Hindi Feature Film and National Award for Best Lyrics. That is unique for a film with four taboo or unspoken stories. Theatrically the business was not great because of the subject but it did good business on DVDs—even through piracy (laughter).

Q. Do you think that parallel cinema in India has the potential to bring profit?

Onir: Parallel cinema is going through a major crisis in India and many parts of the world. That is partly because of the lack of exhibition and distribution support. Unlike Europe, we do not have a chain of theatres that show only indie films. So competing with studio-backed multi-star films with huge publicity money in multiplexes is difficult. But, having said that, I will also add that slowly and surely there is a growing audience for this new Indian cinema in India and worldwide. But it will take a little time and it will surely make some economic sense too. I am positive.

Parallel cinema is going through a major crisis in India and many parts of the world... Unlike Europe, we do not have a chain of theaters that show only indie films. So competing with studio-backed multi-star films with huge publicity money in multiplexes is difficult. But... surely there is a growing audience for this new Indian cinema in India and worldwide - Onir

Q. Digital technology has become very popular nowadays. What is its future?

Onir:. I think it will make cinema more accessible to the masses. In terms of making and distribution it will reduce costs and hence become very important medium for indie films.

Q. Do you think that digital technology can replace the traditional format?

Onir:  Thought the traditionalists refuse to accept but negative is on its way out and soon digital will catch up in terms of quality.

Q. Do you think that India is ready to openly talk about controversial issues that you have raised in your films?

Onir: Well, the fact that I am being able to make my films and survive in India shows that there is an audience and the society is ready to look into its darkness. I think when you accept the darkness within, then that is the first step towards light. The problem is that the Diaspora Indian audience which forms an important part of the revenue for Indian films only watches big stars’ mainstream films. Because of their nostalgia of “home” and “culture” they very often do not want to see the darker side of our society. That is why indie films are rarely released overseas.

Q. What is your stance on the current trend of adopting Western trends like rapping and skimpy dressing by Bollywood?

Onir: I do not think it is a recent phenomenon. What I do not like is when bodies are turned into commodity by the lenses and women are shot and portrayed in a way to feed the male gaze. Otherwise, we always had actresses like Nargis and Sharmila Tagore who carried a swim suit with grace. I think the word “skimpy” is relative. I feel if a scene needs an actress to be swimming we should see her in a swimsuit. And I think just like we men have the right to wear shorts and jeans women have the right to choose how they want their bodies dressed up and seen.
Similarly, I feel that a cinema prospers as it embraces other cultures. India is an amalgamation of cultures. What is termed as “Western” is as much a part of our culture as the Taj Mahal. For me, greetings such as Aslaam-o-Alaikum, Namaste and good morning—are all part of my culture.

Q. Do you plan to continue to highlight social issues in your films?

Onir: Well, I believe in telling stories that touch me. All my films are not what is traditionally called message-oriented. Neither will they be. But whatever I do, I will not have any regressive messaging there. For me that is important.

Film Poster: My Brother...Nikhil [Image Source: mybrothernikhil.com]



Q. What about your upcoming projects? What’s your focus now?

Onir: I am working on a couple of films. I am producing a few films with a company named Sanjay Suri and under the banner Anticlock Films. They are Chauranga, Coach Kameena,
Chauranga is a story about a 14-year-old Dalhit boy who falls in love with an upper class 16-year-old girl and what follows in a racially charged society. It is based on a real even that occurred in 2008. We started shooting that film in September with debutant Director Bikas Mishra.
Then there is Coach Kameena. This is a story of a 16-year-old boy’s love for sports and the pressure on him to perform well in academics from school and family. This will be directed by Ashwini Malik.
Apart from these, we have two of my films under pre-production. SHAB is a love story with a twist and the other is an adaptation of Hamlet. I also look forwarding to casting some Pakistani actors in my next films.

Onir has directed films such as Tiger's Nest (1991), Fallen Hero (1992), My Brother Nikhil (2005), Bas Ek Pal (2006), Sorry Bhai! (2008), I Am (2011) and The Face (2011). He also wrote the scripts for My Brother. Nikhil, Bas Ek Pal and I Am. Apart from these, he has also been editor and producer for a number of film projects.

Q. Do you think that Bollywood is successful in creating its own school of thought and style in the world of filmmaking?

Onir: Bollywood has a distinct identity and definitely a language that is recognised world over. I have travelled a lot and it feels good that wherever you go, you find someone who hums a familiar tune to you or knows names such as Raj Kapoor, Amitabh Bacchan or Shah Rukh Khan.

Q. What is the importance of parallel cinema and why is it needed in the first place?

Onir: You might ask: What’s the need to breathe. I may be exaggerating but yes…It is like asking why you need literature or painting or sculpture. Cinema is also a form of art and can be a very important tool for change. It provides a window for the mind to look at the world with a different perspective. It encourages the mind to question things. That is what parallel cinema does.

Q. What do you say about Indo-Pak collaboration in cinema? Do you have any plan to take this initiative?

Onir: We already have many Pakistani actors and musicians working in the Indian film industry. I think we need to open up our TV and Film worlds to each other. It will be great for both the countries. But you should have what we need. You need to protect Pakistani cinema by making sure that multiplexes will always have enough screen time and space from your own films and have cheaper tickets for them while allowing Indian cinema to come. It is important that it does not drown your own cinema the way it is killing parallel cinema and regional cinema in India.

With Onir at Indo-Pak SOCMM12 in Karachi