Tuesday, February 5, 2013

The pearl of Hasan Abdal: Gurdwara Panja Sahib


گوردوارہ پنجہ صاحب
حسن ابدال کا حسنِ بے مثال

تحریر و تصاویر: شیراز حسن





قدرتی حُسن سے مالا مال حسن ابدال کی حسین وادی امن و محبت کا آفاقی درس دینے والے صوفیاء اور سورماؤں کی سرزمین کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہے۔ حسن ابدال، راولپنڈی کے شمال مغرب میں تقریباً 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع اٹک کی ایک پر فضا سیر گاہ ہے۔ شمالی علاقہ جات کوملانے والی قدیم شاہراہِ ریشم، لاہور سے پشاور جانے والی جرنیلی سڑک کو حسن ابدال کے مقام پر ہی ملاتی ہے۔ حسن ابدال کا شہر قدیم زمانے سے ہی بین الاقوامی شاہراہوں کے اتصال پر واقع ہونے کی وجہ سے عروس البلاد کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ کاروباری سرگرمیاں نقطہ عروج پر تھیں کیونکہ اطراف کے قصبوں اور بیرونی ممالک سے آنے والے قافلے یہاں ٹھہرتے اور درآمدو برآمد کیا جانے والا تمام مال مقامی منڈی سے ہو کر گزرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گردشِ ایام ہررنگ و نسل کے لوگوں کو کھینچ کر یہاں لے آئی۔ آج اس پر امن شہر کی آبادی مختلف نسلوں اورمذاہب کے رنگا رنگ خوشنما گلدستے کا نمونہ پیش کرتی ہے۔

حسن ابدال اپنے خوبصورت تاریخی مقامات اور سکھ مذہب کی ایک اہم عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سکھ زائرین بیساکھی کے میلہ اور دیگر اہم مذہبی تہواروں کے موقع پر گردوارہ پنجہ صاحب پر حاضر ہو کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔  حسن ابدال کے دیگر اہم تاریخی مقامات میں مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور مغلیہ دور کا ایک مقبرہ اور بابا ولی قندھاری کی چلہ گاہ شامل ہیں۔ 





حسن ابدال مذہبی و تاریخی حوالوں سے دو اہم شخصیات کے باعث منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دوشخصیات بابا ولی قندھاری اور سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک ہیں۔ مورخین کے مطابق بابا ولی قندھاری کا اصل نام حسن تھا اور حسن ابدال شہر انہی کے نام سے منسوب ہے۔بابا ولی قندھاری مرزا شاہ رخ ابن تیمور کے ہمراہ تقریباً 1408ء میں قندھار، افغانستان سے تشریف لائے تھے۔ اس شہر کی تاریخی اور سیاسی حیثیت کے پیش نظر انہوں نے یہیں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے قیام کے لیے قریبی پہاڑی چوٹی کا انتخاب کیا۔ ان کے حسنِ اخلاق نے بہت سارے مقامی افراد کو ان کا گرویدہ بنادیا اور لوگ دور دور سے آ کر کسبِ فیض کرتے اور علم و حکمت کے گراں بہا موتی سمیٹتے۔بابا ولی قندھاری ایک طویل عرصہ یہاں قیام کے بعد قندھار واپس لوٹ گئے اور وہیں ان کا وصال ہوا، جہاں آج بھی ان کا مزار مرجع خاص و عام ہے۔

موجودہ دور میں حسن ابدال کی گوردوارہ پنجہ صاحب کے حوالے سے دنیا بھر کے سکھوں کے لیے مقدس مقام کے طور پر اپنی شناخت ہے۔ سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گرو بابا گورنانک دیو، شیخوپورہ کے گاؤں بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) میں 1469ء میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ہندوستان پر سلطان لودھی کی حکومت تھی۔ بابا گورو نانک بت پرستی کے خلاف تھے اور فلسفہ وحدانیت کے قائل تھے۔ انہوں نے بلا تفریقِ قوم و مذہب، امن و محبت اوربھائی چارے کے پیغام کو عام کیا۔ وہ اپنے دو چیلوں مردانہ مطرب اور بالا کے ہمراہ دنیا کی سیرکونکلے اور مکہ مکرمہ کی زیارت سے بھی مستفید ہوئے۔ بابا گورونانک اسلامی تصوف اورہندو یوگ سے متاثر تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو ہندوؤں اور مسلمانوں میں تنازعے نے سر اٹھایا۔ ہندو ان کی ارتھی جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنے پر مصر تھے۔ چنانچہ بابا گرونانک کی وصیت کے مطابق ان کی آخری رسومات کو اگلے دن تک مؤخر کر دیا گیا۔ دوسرے روز جب ہندو اور مسلمان موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ پھول تو بدستور تازہ تھے مگر جسد خاکی غائب تھا، یوں امن پسند اور محبت کے داعی نانک نے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو کشت و خون سے بچا لیا۔






سکھ روایات کے مطابق بابا گرونانک اپنے مرید بھائی مردانا جی کے ہمراہ جب حسن ابدال میں قیام کے لیے آئے تو پہاڑی پر قیام پذیر بابا ولی قندھاری سے پانی طلب کیا ۔ سکھ روایات کے مطابق بابا گرو نانک نے تین بار بابا ولی قندھاری سے پانی طلب کیا جس پر بابا ولی قندھاری نے انکار کر دیا۔ جس کے بعد بابا گرو نانک نے زمین پر سے ایک پتھر ہٹایا تو پہاڑی کے دامن سے ایک چشمہ بہہ نکلا اور دوسری جانب پہاڑی پر بابا ولی قندھاری کا چشمہ سوکھ گیا۔ اس پر بابا قندھاری نے طیش میں آ کر ایک وزنی چٹان نیچے لڑھکا دی جسے بابا گورونانک نے روکنے کی کوشش کی اور ان کے ہاتھ کا نشان اس پتھر پر ثبت ہو گیا۔ یہ وزنی پتھر آج بھی گور دوارہ کے صحن میں موجود ہے اور یہاں آنے والے سکھ یاتری اس اس پتھر کو مقدس سمجھتے ہوئے اس کی زیارت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بہنے والے چشمے کا پانی پیتے اور اس سے اشنان کرتے ہیں۔





کچھ مورخین اس واقعہ کی صداقت کے حوالے سے سوال بھی اٹھاتے ہیں۔ بدھ ادب میں بھی ایسا ہی ملتا جلتا واقعہ مہاتما گوتم بدھ کے ساتھ منسوب ہے۔ جب ان کے چچا زاد بھائی دیودت نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی اور مہاتما بدھ نے پہاڑی کی چوٹی سے لڑھکائی جانے والی چٹان ہاتھ سے روک لی۔ اس جاتک کہانی کی حجری تختی آج بھی ٹیکسلا کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، ہو سکتا ہے کہ اس تاریخی قصے کے کرداروں کے نام بابا گرونانک اور ولی قندھاری کے رنگ میں رنگ دیئے گئے ہوں یا پھر دونوں مختلف روایات بھی ہو سکتی ہیں۔

حسن ابدال کا پرانا گوردوارہ انیسویں صدی کے شروع میں پنجاب میں سکھ دور حکومت کے دوران 1830ء میں ہری سنگھ نلوہ (تاریخ وفات 1837ء)نے تعمیر کرایا تھا جس میں بعد ازاں گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے توسیعی کام انجام دیا۔ تحصیل حسن ابدال سے متصل ہری پور قصبے کی بنیاد بھی ہری سنگھ نلوہ نے ہی رکھی تھی اور آج بھی یہ شہر ان کے نام سے مشہور ہے۔


گوردوارہ پنجہ صاحب کی عالی شان عمارت ولی بابا قندھاری کی چلہ گاہ کے سامنے واقع ہے۔ اس گوردوارہ کی مرکزی عمارت سفید اور پیلے رنگوں سے آراستہ ہیں۔ مرکزی عمارت کے ساتھ ہی پنجہ صاحب کے نشان والا پتھر اور وسیع تالاب ہے جہاں سکھ یاتری اشنان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وسیع صحن ہے اور چاروں جانب یاتریوں کے مہمان خانے اور لنگر خانے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ہر سال یہاں آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں ۔

گوردوارہ کے سامنے پہاڑی کبھی بابا ولی قندھاری کی اقامت گاہ رہی تھی۔ اب یہاں آس پاس بکریاں، مور، بطخیں، مرغیاں اور کبوتروں کے غول کے غول منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ چرند پرند زائرین سے بھی خاصے مانوس ہیں اور ان کی آمد سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ منتوں اور مرادوں کے ضمن میں عقیدت مند پانی سے بھرے گھڑے اٹھا کر پہاڑی پر لاتے ہیں۔ بجلی کے آ جانے سے برقی روشنیوں اور رنگ برنگے قمقموں نے بھی رونق دوبالا کر دی ہے۔ خدام الفقراء کی جانب سے لنگر و نیاز کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے۔ گاہے گاہے قوالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔

حسن ابدال کا یہ حُسن ہے کہ فطرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے، سرسبز ہریالی اور قدرتی چشمے جہاں آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں وہیں یہ شہر مذہبی ہم آہنگی کا بھی ایک دلکش امتزاج پیش کرتا ہے۔




یہ مضمون روزنامہ جہان پاکستان میں شائع ہوا تھا
For English version Click here

No comments:

Post a Comment