Sunday, January 15, 2012

Anarkali: Symbol of Love, A True Legend or A Myth





عشق، محبت اور وفا کی علامت۔۔۔ انارکلی

مقبرہ انارکلی کے حوالے سے خصوصی رپورٹ

Tomb of Anarkali. Photo by: Afzal Abbas


انارکلی عشق، محبت اور وفا کی تصویر ہے اور مقبرہ انارکلی کو محبت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ برصغیر میں عشقیہ و رزمیہ داستانوں میں انارکلی کے کردار کو مثالی کردار قرار دیا جاتا ہے۔ محبت کرنے والے انارکلی کو وفا کی علامت تسلیم کرتے ہیں ۔ اقتدار اور محبت کی جنگ انارکلی کا فسانہ ہے۔



دوسری جانب اس امر کا تعین کرنا خاصا تحقیق طلب کام ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ مغل دور حکومت فن تعمیر کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ان کی تعمیر کردہ عظیم الشان عمارات جہاں مرقع کاری اور کاریگری کے مبہوت کر دینے والے عناصر سے مزین ہیں وہیں وہ دور اپنے پیچھے ایک محبت کی لازوال داستان چھوڑ گیا ہے۔ انار کلی اور شہزادہ سلیم (جہانگیر)کے عشق کی داستان ایک ختم نہ ہونے والی بحث میں تبدیل ہو گئی ہے۔ تاریخ دانوں اور عوام کی آراء بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف النوع خیالات و قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس بات کا فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق ایران کا ایک سوداگر اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آیا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ڈاکوؤں نے سوداگر کو قتل کر دیا اور اس کی خوبرو بیٹی راجہ مان سنگھ حاکم کابل کے پاس فروخت کر دی گئی۔ راجہ مان سنگھ نے اسے شہنشاہ اکبر کے حضور تحفتاً پیش کیا۔ اکبر نے اسکے حسن سے متاثر ہر کر اسے انار کلی کا نا م دیا۔ اور اسے دربار میں رقاصہ خاص کا درجہ دیا گیا۔



ایک روایت کے مطابق 1599 ء میں اکبر کے وزیر خاص ابو الفضل نے اکبر کے سامنے انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کے تعلقات سے متعلق میں شبہ کا اظہار کیا۔ ایک موقع پر شیش محل میں جہاں شہنشاہ اکبر نے شاہی دربار لگا رکھا تھا، سلیم اور انار کلی کے درمیان مسکراہٹوں کے تبادلے نے شہنشاہ اکبر کے شبہات کو یقین میں بدل دیا اور شہنشاہ نے انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔ اس حوالے سے بے شمار عوامل تحقیق طلب ہیں کہ کیا انار کلی ایک زر خرید کنیز تھی اور اس کے دل میں شہزادہ سلیم کو اپنے دام محبت میں گرفتار کرنے کا خیال تھا تاکہ وہ آئندہ تخت پر بیٹھنے والے سے منسلک ہو کر ہندوستان کی ملکہ کی حیثیت اختیار کرے۔ یہ بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انار کلی کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں یا یہ محض ایک فرضی داستان ہے۔ یہ سب باتیں متنازعہ ہیں اور اس حوالے سے مختلف تاریخ دان مختلف آراء بیان کرتے ہیں۔ مولوی نور احمد چشتی اپنی تصنیف ’تحقیقات چشتی‘ میں لکھتے ہیں کہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کی داستان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، ان کے خیال کے مطابق شہنشاہ اکبر نے نادرہ بیگم یا شریف النساء کو اسکے حسن کی وجہ سے انار کلی کا خطاب دیا تھا۔ اپنے مسحور کن حسن کی وجہ سے وہ دوسری بیگمات کے حسد کا شکار ہوئی اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ایک اور روایت کے مطابق جب اکبر دکن کی مہم پر تھا تو یہ حسین عورت کسی بیماری میں چل بسی۔ 



سید محمد لطیف اپنی کتاب ’تاریخ لاہور اور اس کے آثار قدیمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی موقع پر شہنشاہ اکبر نے اسے اور شہزادہ سلیم کی مسکراہٹوں کو آئینے میں دیکھا اور اس بنا پر اسے دیوار میں زندہ چنوا دیا۔ انار کلی کے بارے میں سب سے پہلا تذکرہ ایک انگریز ولیم فن چکا ہے جو کاربار کے سلسلے میں 1611ء میں لاہور آیا تھا۔ فقیر سید اعجاز الدین نے ولیم فنچ کا ذکر اپنی کتاب’لاہور‘ میں کیا ہے کہ فنچ نے لاہو رمیں ایک مقبرہ دیکھا جس کے بارے میں اسے بتایا گیا یہ ایک خاتون نادرہ کا مقبرہ ہے جسے اکبر کے حکم سے دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ اس بات کو دیگر محققین تسلیم نہیں کر رہے تھے کیونکہ اکبر کے دور میں شیش محل تعمیر نہیں ہو ا تھا بلکہ اس کو شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا لیکن بعد ازاں ایک اور انگریز مو’رخ نے 1935ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک رسالے میں مضمون لکھا جس میں انہوں واضح کیا کہ جن آئینوں سے اکبر نے سلیم اور ایک کنیز کو دیکھا تھا وہ دو فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے آئینوں کی ایک قطار تھی جو اس دور میں قلعہ لاہور کے رہائشی حصے میں نصب تھی۔ ایک مورخ ٹیری نے اپنے رسالہ ٹیری جرنل میں 1655ء میں لکھا کہ شہنشاہ اکبر نے شہزادہ سلیم کو تخت سے الگ کرنے کی دھمکی دی تھی، اور اس کی وجہ اکبر کی منظور نظر کنیز انار کلی تھی۔



یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس داستان کا مرکزی کردار شہزادہ سلیم اس معاملہ میں بالکل خاموش ہے اس نے اپنی خود نوشت تزک جہانگیری میں اپنے بے شمار دوسرے مشاغل اور دلچسپیوں کا بے باکی سے ذکر کیا ہے۔ لیکن انار کلی کے واقعہ کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔



کنہیا لال ہندہ اس حوالے سے ’تاریخ لاہور‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’انارکلی ایک کنیز نہایت خوبصورت اکبر بادشاہ کے محل کی تھی جس کا اصلی نام نادرہ بیگم تھا۔ بادشاہ نے باسبب اس کے کہ حسن و جمال میں لاثانی تھی اور رنگ سرخ تھا، انارکلی کے خطاب سے اس کو مخاطب کیا ہوا تھا ۔ جن دکھوں بادشاہ دکھن و خاندیس کی مہموں میں مصروف تھا ، یہ لاہور میں بیمار ہو کر مر گئی۔ بعض کا قول ہے کہ مسموم ہوئی۔ بادشاہ کے حکم سے یہ عالیشان مقبرہ تعمیر ہوا اور باغ تیار ہوا جس کے وسط میں یہ مقبرہ تھا۔ سکھی سلطنت کے وقت باغیچہ اجڑ گیا، چار دیواری کی اینٹیں خشت فروش اس کو گرا کر لے گئے، مقبرہ باقی رہ گیا۔ اس میں جو سنگ مرمر کا چبوترہ تھا اس کا پتھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اتروالیا۔ قبر کا تعویذ ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا‘‘۔ 



اس تمام تاریخوں حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیشتر موؤخین کی رائے ہے کہ انار کلی کی داستان محض ایک افسانہ ہے جسے امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی نے لازوال شہرت بخش دی ہے اور امر بنا دیا۔ امتیاز علی تاج نے یہ ڈرامہ 1923ء میں لکھا تھا اور انہوں نے بھی اس ڈرامے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کی اس کہانی کے پس منظر میں محض وہی تاریخی حقیقت ہے جس کا ولیم فنچ نے ذکر کیا ہے باقی سب محض کہانی ہے۔



کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ جگہ جسے انار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے (موجودہ سول سیکریٹریٹ، لوئر مال روڈ، لاہور) دراصل جہانگیر کی ایک ملکہ صاحب جمال کا مقبرہ ہے اس جگہ کے اطراف میں انار کلی باغ تھا۔ اسی مناسبت سے اس مقبرے کو انار کلی کا مقبرہ قرار دیا جاتا ہے۔ انار کلی کے نام کے حوالے سے لاہور میں قائم ہونے والے انار کلی بازار کی شہرت بھی دوامی ہے۔

انارکلی کا مقبرہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ کنہیا لال ہندی اس مقبرے کی عمارت کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس مقبرے کی عمارت ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو میں ایک ایک دروازہ ہے۔ اندر سے مقبرہ دو منزلہ ہے اور وسط میں عالی شان گنبد ہے۔ دوسری منزل میں چھوٹی بڑی نو کھڑکیاں ، چھوٹے گنبد ہیں۔ پہلے اس کے آٹھ دروازے نیچے اور آٹھ اوپر کی منزل میں تھے اب زیریں منزل کے آٹھ دروازے بدستور ہیں اور اوپر کے دروازوں میں تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ 



پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ نے ایک منصوبے کے ذریعے لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں واقع انار کلی کے مقبرے کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے اور اس کی حدود کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کر کے ایک تاریخی عمارت کے طور پر عام لوگوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور مقبرے کے عقب میں واقع 24سرکاری کوارٹرز ملازمین سے خالی کروا کے منہدم کر دیے گئے ہیں۔ مقبرے کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کرنے کے لیے عقب میں اس کا اپنا ایک دروازہ تعمیر کیا جائے گا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ کے اندر اس کے گرد دیوار بنا کے اس کو ایک علیحدہ تاریخی عمارت میں تبدیل کیا جائے گا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے کھدائی کا کام جاری ہے جو کہ مقبرہ اور اس کے ارد گرد کے تاریخی اہمیت کے حامل آثار اور تاریخی حقائق فراہم کرنے میں مدد دے گی۔ مقبرہ انار کلی مغلیہ دور میں تو ایک مقبرہ ہی رہا ۔ سکھ دور میں لارڈ فرانسس کے ماتحت چار سکھ پلٹنیں تھیں، انہوں نے رہائش کے لئے اس مقام کو موزوں تصور کیا اور یہاں قیام پذیر ہوگئے۔ 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہ عمارت گرجا گھر میں تبدیل کر دی گئی تھی اور عمارت کو سفید چونے سے ڈھک دیا گیا اور گنبد پر صلیب نصب کر دی گئی۔ اورانگریزوں ہی نے 1891ء میں اس کو پنجاب ریکارڈ آفس بنا یا تھا اور آج تک یہ ریکارڈ روم ہی کہلاتا ہے مگر یہاں سنگ مرمر کی قبر کا ایک نشان Cinetaph ہمیشہ موجود رہا ہے جس کی وجہ سے اس کوانار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔اب پنجاب حکومت نے اس کی مزید تاریخی حیثیت سے پردہ اٹھانے کیلئے اس کے احاطے کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کی جارہی ہے۔



محکمہ آثار قدیمہ کے عہدے دار سلیم الحق کے مطابق صدیوں سے رنگ وروغن کی مختلف تہیں جو اس مقبرے پر جما دی گئی ہیں ان کو بھی سائنسی انداز میں ہٹایا جائے گا تاکہ اس عمارت کی اصل شکل و صورت سامنے آئے اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی وہی شکل بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو تعمیر کے وقت تھی۔ ان کے مطابق سکھوں کے دور حکومت میں اس مقبرے کو کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا اور مقبرے چونکہ چاروں طرف سے کھلے ہوتے ہیں لہذا رہائش گا ہ میں تبدیل کرتے وقت اس کی باہر کی طرف واقع محرابوں کو دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ مقبرے کی یہ تجاوزات بھی ایک طرح سے سکھ دور کے طرز تعمیر کی نمائندہ ہیں لہذا یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جن تجاوزات کو ہٹانا ضروری نہیں ہے ان کو سکھ دور کی علامت کے طور پر قائم رکھا جائے اور باقی تجاوزات کو ختم کر کے مقبرے کو اصلی شکل میں بحال کیا جائے۔ 



تاریخی طور پر اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ قبر انارکلی نام کی کسی خاتون کی ہے ۔ قبر کے پتھر پر بھی کچھ اشعار اور سن وفات 1599ء درج ہے مگر کوئی نام درج نہیں ہے۔ قبر پر مجنوں سلیم اکبر کا نام کندہ ہے ۔اس دور میں جہانگیر کا نا م نورالدین سلیم لکھا جاتا تھا جبکہ بعد ازاں وہ بادشاہ بنا تو اس کا نام نورالدین جہانگیر ہو گیا تھا لہذا مجنوں سلیم اکبر کا نام بھی تحقیق طلب معاملہ ہے۔ البتہ بعض تاریخ دانوں نے یہ مو’قف اختیار کیا ہے کہ یہ مقبرہ جہانگیر کی ایک بیوی صاحب جمال کا تھا جو جہانگیر کی عدم موجود گی میں لاہور میں وفات پاگئیں اور یہیں دفن ہو گئیں۔ لیکن مغل بادشاہ اپنی بیگمات کے مقبروں پر لازمی طور ان کے نام کندہ کرواتے تھے مگر یہاں کوئی نام کندہ نہیں ہے۔ مختلف محققین کے مطابق اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ 1599ء میں اس صاحب مزار کا سن وفات ہے اکبر اور ان کا بیٹا سلیم دونوں لاہور سے باہر تھے ، عام لوگ اس کو انار کلی کا مقبرہ ہی کہتے ہیں اور مستقبل میں اس پر کتنی بھی مزید تحقیق ہو جائے ڈراموں اور فلموں نے انار کلی کے کردار کو ان کے بقول جس طرح امر کر دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مقبرہ اس کردار کے نام ہی موسوم رہے گا۔



انارکلی کے کردار کو امر کرنے کا سہرا ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے ’انارکلی‘ ڈرامہ لکھ کر اس کردار کو عشق و محبت کے داستانوں میں ان مٹ تاریخ رقم کر دی ہے۔ ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کی منظر نگاری کی گئی ہے۔ ڈرامہ نگار نے اس ڈرامہ کے توسط سے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ محبت ایک لازوال طاقت ہے چنانچہ جب قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی اور سوگ کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ امتیاز علی تاج اس حوالے سے خود کہتے ہیں’’میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے ۔ بچپن سے انارکلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔‘‘ البتہ اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔



اس ڈرامہ میں انکا کردار نہایت جاندار ہے۔ وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔



انارکلی کی یہ فرضی کہانی برصغیر کے سینما میں بھی اہم مقام کی حامل رہی ہے۔ عشق اور اقتدار کی جنگ بالی وڈ کی رومانوی فلم کے لیے ایک آئیڈیل پلاٹ مہیا کرتا ہے۔ لہذا اس موضوع پر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں کئی شاہکار اور کاسیک فلمیں تیار کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں 1953ء میں پردیپ کمار، بینا کماری اور نور جہاں کی کاسٹ پر مشتمل پر ’انارکلی‘ قابل ذکر ہے۔1958ء میں بھی پاکستان میں انارکلی کے نام سے فلم بنائی جس میں انارکلی کا کردار نور جہاں نے ہی ادا کیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں کے آصف کی تیار کردہ فلم ’مغل اعظم‘ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان کے حوالے سے بنائی جانے والی تمام فلموں میں کامیاب ترین قرار دی جاتی ہے۔ تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت میں اس عشقیہ داستان کو مختلف انداز میں فلمایا جا چکا ہے۔کچھ عرصہ قبل شعیب منصور نے ویڈیو گیت ’عشق‘ میں انارکلی کی داستان کو مختصر انداز میں پیش کیا تھا۔ انارکلی کے کردار میں ایمان علی اور پس پردہ آواز  شبنم مجید  کی تھی جسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ 



حیقیقت خواہ کوئی بھی ہو۔ انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کا قصہ محض فرضی داستان تھا یا نہیں۔ مقبرہ انارکلی میں قبر انارکلی کی ہی ہے یا نہیں۔ اس تمام امور سے قطع نظر ادب و ثقافت پر اس کردار نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ صدیوں سے مقبرہ انارکلی عشق اور محبت کی علامت کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے اور آج بھی لوگ انارکلی کو عشق، محبت اور وفا کی علامت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔  






4 comments:

  1. Humera Arshad didn't sing that song, it was Shabnum Majeed.

    ReplyDelete
  2. @Nazish

    Thanks for the mentioning. corrected

    ReplyDelete
  3. Shiraz, did you write it? And has it also appeared in print somewhere?

    ReplyDelete
  4. sheraz,lahore day which reh k v sanoo lahore day baray ena kuj nai c pata,ge oye kakaay bara sohna tay mehnat wala kam kitaa e,geo hazaroo saal !!

    ReplyDelete