Monday, January 23, 2012

Taxali Gate: It is not all about Heera Mandi




جہاں راتیں جاگتی اور خواب بکتے تھے۔۔۔


شہر قدیم کے ٹکسالی دروازے کے حوالے خصوصی فیچر





شہر قدیم کا یہ علاقہ غروب آفتاب کے بعد روشنیوں سے جگمگا اٹھتا اور اس کی فضا معطر ہوجاتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں راتیں جاگتی تھیں اور خواب بکتے تھے۔ قلعہ لاہور کی عقب میں واقع بازار حسن جہاں کسی زمانے میں حسن کی دوکانیں سجتی تھیں اور زندگی کی تلخیوں کو بھلا کر خواب کی تلاش میں حسین لمحات گزارتے تھے۔ شہر قدیم کے ٹکسالی دروازے کے اندر رقص و سرور سے منسوب یہ علاقہ زمانہ قدیم سے ہی موسیقاروں اور رقاصاؤں کا مسکن ہے۔ مغل عہد میں اس علاقے کو شاہی محلہ کا نام دیا گیا اور بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہیرا سنگھ کے نام پر اسے ہیرا منڈی پکارا جانے لگا۔



شہر قدیم کا ٹکسالی دروازہ فصیل شہر کے مغربی جانب جہاں ڈینٹل کالج قائم ہے اس کے دائیں جانب واقع ہے۔ کنہیا لال ’تاریخ لاہور‘ میں اس دروازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شاہان سلف کے عہد میں اس دروازہ کے اندرون شمالی میدان میں دارلضرب شاہی ایک عالی شان مکان بناہوا تھا اور اسی جگہ ہر ایک کا سکہ مسکوک و مضرب ہوتا تھا اس ٹکسال کے سبب سے اس کا نام ٹکسالی دروازہ مشہور ہوا اب اگرچہ انقلاب زمانہ نے اس ٹکسال کی بیخ و بنیاد باقی نہیں چھوڑی مگر بقیہ حصہ مسجد ٹکسالی کا باقی ہے جس کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں کا نسی کار عمدہ مسجد بنی ہوگی۔‘‘ 



ایک دوسری روایت کے مطابق اس دروازے کا رخ ٹیکسلا کی جانب ہے اس لئے اس دروازے کو ٹکسالی دروازہ کہا جانے لگا تھا۔ دارلضرب کی تعمیر عہد شاہ جہانی میں ہوئی تھی اور ٹکسال والی مسجد فدائی خاں کوکہ کے نائب عبداللہ نے تعمیر کروائی تھی۔ ٹکسالی دروازے کے بائیں جانب کھلے احاطہ میں انگریز عہد میں لیڈی ولنگڈن ہسپتال کی وسیع عمارت تعمیر کی گئی جو بادشاہی مسجد کے مغربی جانب واقع ہے۔ شہر پناہ کے مغربی جانب واقع سرکلر گارڈن شہر کے دیگر دروازوں کی نسبت کم تجاوزات کی زد میں ہے اور اسی باغ کے سامنے سرکلر روڈ کی دوسری جانب حضرت پیر مکی کا دربار اور گورا قبرستان واقع ہے۔ بیرون ٹکسالی دروازہ حضرت سید عبدلرزاق المعروف ’’بابا بندھو شاہ‘‘ کا مزار ہے۔ دربار سے ملحقہ ایک قدیم پیپل کا درخت ہے۔ ماضی میں یہاں پر تانگوں کا اڈہ اور گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض بھی تھا۔


 ٹکسالی دروازے کے اندر قدیمی ٹکسالی مسجد آج بھی موجود ہے جس کی زیریں منزل پر جوتوں کی دوکانیں ہیں اور اس سے ملحقہ شادی بیاہ کے لئے بگھیوں کی چند دوکانیں ہیں۔ یہاں دو سے آٹھ گھوڑوں والی بگھیاں مل جاتیں ۔ اس کے علاوہ پالکی ڈولی بھی مل جاتی ہے۔ یہاں میوزک بینڈز والے بھی موجود ہیں جو شادی بیاہ کی تقریبات کے لئے ساز و آواز کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ قدیمی ٹکسالی مسجد کی جنوبی دیوار جو بازار کی جانب ہے، وہاں کاشی ٹائلز و ٹیرا کوٹا جالی کے خوبصورت کام کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ بازار شیخوپوریاں کہلاتا ہے۔ مسجد کی زیریں منزل پر کھوکھا جات ہیں جن سے محکمہ اوقاف کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ بازار کھسہ جات، کوہاٹی چپل اور پشاوری چپل کے حوالے سے خاص شہرت کا حامل ہے۔ بازار سے آگے جائیں تو ٹبی محلہ آجاتا ہے جب کہ بائیں جانب قدرے ہٹ کر تکیہ صابر شاہ ولی ہے جہاں مزار و مسجد موجود ہے۔ مزار سطح زمین سے دس گیارہ فٹ بلند پلیٹ فارم پر واقع ہے


 ٹکسالی دروازے کے راستہ شاہی محلے اور نخاس منڈی سے گزرتا ہوا قلعے کے ساتھ ساتھ مستی دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ سڑک شاہی قلعہ اور شہر قدیم کو علیحدہ بھی کرتی ہے۔ آبادی اور تجارتی مرکز ہر دو لحاظ سے ٹکسالی دروازے کا علاقہ کم آباد ہے۔



ٹکسالی دروازے کا علاقہ شاہی قلعے کے بالکل عقب میں واقع ہے اس لحاظ سے یہ امرا اور شاہی حکمرانوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اندرون ٹکسالی دروازے کا شاہی محلہ قدیم دور سے ہی طوائفوں کا مرکز رہا ہے۔ ہر چند کہ اب شاہی محلہ کی رونقیں ناپید ہو چکی ہیں لیکن کسی زمانے میں گھنگھروؤں کی چھنکار سے یہ علاقہ گونجتا تھا۔ دوسری جانب ٹبی کا علاقہ پیشہ ور عورتوں کا مسکن ہے۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں خوشی کے چند لمحات کی تلاش میں سرکرداں لوگوں کی جنت تھی۔ یہاں آنے والوں میں نوجوان، بوڑھے، شادی ، غیر شادی شدہ بھی افراد شامل تھے جو ناچنے گانے والی لڑکیوں کے ساتھ حسین لمحات گزارتے تھے۔ امراء کے لئے ہیرا منڈی میں آنا شان کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ان میں سب سے خوبصورت طوائف کا مالک ہونا فخر اور بڑائی کی علامت تصور ہوتا تھا۔ تاہم بات صرف ناچنے گانے تک محدود نہیں رہتی تھی جو افراد قیمت ادا کر سکتے تھے ان کے لئے دیگر خدمات بھی میسر تھیں۔



زمانہ قدیم میں طوائف کا گھر ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا ، خاص طور پر مغل عہد میں ناچنے گانے والی چند لڑکیوں نے شاہی دربار تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ وہاں وہ اشرافیہ کو موسیقی، شاعری اور رقص میں اپنی کاملیت اور دستگاہ کی بدولت تفریح کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ ان میں برطانوی مہمان بھی شامل ہوتے تھے۔ امراء اور نواب خاندانوں کے نوجوان کو آداب و وضع داری سکھانے کے لئے طوائفوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔



برطانوی عہد میں ہیرا منڈی کی رونقوں اور شان و شوکت میں خاصی کمی آگئی اور نوابی نظام کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ لیکن نئی وجود میں آنے والی ریاستوں اور پنجاب کے جاگیرداروں کی سرپرستی میں ہیرا منڈی آباد رہی ۔ ناچنے گانے اور موسیقی کی محفلیں نوابوں اور جاگیرداروں کی ڈیروں پر منعقد ہونا شروع ہو گئیں اور کئی نسلوں تک فن موسیقی ہیرا منڈی کے خاندانوں تک محدود رہا۔ برصغیر کی کئی نامور گلوگاراؤں نے یہیں جنم لیا تھا۔


بھارتی ادیب پران نوائل اپنی تصنیف ’’جب لاہور جوان تھا‘‘ میں ہیرا منڈی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’20ء کی دہائی میں تھیڑیکل کمپنیوں نے ہیرامنڈی کی ان طوائفوں کو کچھ آزادی مہیا کی لیکن 30ء کی دہائی میں سینما کی آمد سے ان کے لئے اپنے فن کے اظہار کا ایک درخشاں باب کھلا۔بعد میں ان میں سے کئی نمایاں ستارے پیدا ہوئے۔ براڈ کاسٹنگ کی وجہ سے کئی دوسروں نے بھی ریڈیو آرٹسٹ کے طور پر گانا شروع کر دیا۔ ان میں ایک عمرہ ضیا اپنے گانے ’’میرا سلام لے جا۔۔۔ تقدیر کے جہاں تک‘‘ کی بدولت 1935ء کے لگ بھگ راتوں رات ایک بڑی گائیکہ بن گئی۔‘‘ برصغیر کے سینما کی ابتدائی دور میں لاہور کا یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ یہیں پر لاہور کا قدیم تھیٹر واقع تھا جسے بعد ازاں پاک ٹاکیز کا نام دے کر سینما گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں پر ملکہ ترنم نور جہاں اور دیگر اداکارائیں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ پاک ٹاکیز کے ساتھ ہی باؤ حمید کی کٹڑی ہے جہاں اردو ادب کے معروف افسانہ نگار غلام عباس قیام پذیر رہے۔ غلام عباس کا افسانہ ’آنندی‘ کا تانہ بانہ بھی ہیرا منڈی کے گرد بنا گیا ہے اور بعدازاں اسی افسانے سے ماخود فلم ’منڈی‘ بھی تیار کی گئی۔



اندرون ٹکسالی موسیقاروں کا مسکن رہا تھا اور یہاں برصغیر کے بے شمار فن کاروں نے جنم لیا اور کئی دیگر فنکارائیں یہاں استادوں سے موسیقی کی تربیت حاصل کرنے آتی تھیں ان میں عیدن بائی اکھیاں والی، عید بائی ہسیاں والی، زیب النسا اور عنایت بائی قابل ذکر ہیں۔ موسیقاروں میں طافو گھرانہ، ایم اشرف، مشتاق علی ، استاد دلاور حسین اور استاد خوشنود دلاور کے نام قابل ذکر ہیں۔ استاد دلاور حسین کے بیٹے استاد ظفر دلاور آج بھی شاہی محلہ میں رقص کی تربیت دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے اپنے زمانے کی کامیاب ترین اداکاراؤں عالیہ، نگو، زمرد، مسرت چودھری، ممتاز، زینت، آشا پوسلے اور صبیحہ خانم کو رقص کی تربیت دی تھی جبکہ ریما، بندیا، زیب الطاف اور زیبا بختیار جیسی اداکاراؤں نے ان کے بھائی خوشنود دلاور سے رقص کی تربیت حاصل کی تھی۔استاد ظفر دلاور کا کہنا ہے اس وقت شاہی محلہ میں رقص کی تربیت دینے والے صرف چند افراد باقی رہ گئے ہیں۔ فن موسیقی اور رقص کا گہوارہ یہ علاقہ ویران ہو چکا ہے ۔ اس لئے انہوں نے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے رقص کی تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 



اندرون ٹکسالی دروازے کا یہ علاقہ ذہنی و جسمانی سکون کا مرکز تھا۔ گھنگھروؤں کی جھنکار اور قہقہوں کی گونج فضا میں رقصاں رہتی تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی لوہاری دروازے کے باہر انارکلی کے پاس جہاں کئی ریستوران اور شراب خانے تھے تانگوں کی قطاریں لگ جاتیں۔ چار نشتوں والے تانگے ٹکسالی دروازے اور راوی روڈ کے راستے ہیرا منڈی جانے کے لئے بھاٹی دروازے کی جانب بھاگ رہے ہوتے تھے۔ اکثر افراد لوہاری دروازے کے اندر چوک چکلہ ، لوہاری منڈی اور سید مٹھا بازار سے ہوتے ہوئے ہیرا منڈی پہنچتے تھے۔ 



آج سے تقریباً چالیس پچاس برس قبل ہیرا منڈی میں چلتے ہوئے بالا خانوں کی کھڑکیاں دیکھی جا سکتی تھی جن پر پردے لٹکتے ہوتے تھے اور جن کے پیچھے ناچنے گانے والی لڑکیاں اپنے گاہکوں کا دل بہلاتی تھیں۔ سارنگی کی تانیں اور طبلے کی تھاپ باہر ہی سے سنی جا سکتی تھی۔ گاہک کو جگمگاتی روشنیوں کے درمیان است قالین سے مزین فرش پر بٹھایا جاتا جس کے اوپر سفید چادریں بچھی ہوتی تھی اور ان کو سہارے کے لئے گاؤ تکیے بھی دیے جاتے، گانے والی لڑکی درمیان میں بیٹھتی اور اس کے پیچھے سازندوں کی ٹولی اپنے ساز لئے گائیکہ کے ساتھ سنگت کر نے کے لئے تیار بیٹھ جاتی اور نائکہ کی اشارے پر محفل کا آغاز ہوتا۔ غزل، ٹھمری اور گیت گانے کے دوران حاضرین داد کے ساتھ روپے بھی نچھاور کرتے۔ سازندے اپنے دازوں کے ذریعے گانے کے بول دہرا کر ایسی نغماتی فضا پیدا کر دیتے جس سے سننے والے اور گانے والے درمیان ایک ہم آہنگی پیدا ہو جاتی۔ 



ہیرا منڈی کی طوائفوں میں نتھ کھلوائی کا جشن بڑی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ سونے یا چاندی کی نتھ روایت کے مطابق اس کے کنوارے پن کی علامت سمجھی جاتی تھی اور نتھ کھلوائی کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ اپنے نئے پیشے کا آغاز کر رہی ہے۔ اس موقع پر جشن کا سا سماں ہوتا تھا ۔


شاہی محلہ میں ایک طوائف کے گھر میں آنکھ کھولنے والی لڑکی کا مستقبل ناچنے گانے اور جسم فروشی
 سے وابستہ ہوتا ہے، کسی طوائف یا جسم فروش کے ہاں لڑکی کا پیدا ہونا خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی نسبت لڑکے کو بوجھ خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم اقبال حسین ایک ایسا نام ہے جس نے اپنی شناخت خود قائم کی۔ وہ ایک طوائف کے بطن سے پیدا ہوئے لیکن آج ان کا شمار ملک کے نامور ترین مصوروں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے شاہی محلے کے گلی کوچوں، گھروں اور طرز زندگی کو کینوس پر اتارا۔ انہوں نے شاہی محلہ میں ریستوران بھی قائم کر رکھا ہے جہاں ان کی مصور کردہ تصاویر آویزاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ میں نے مصور کیا میرے ارد گرد یہی زندگی ہے اور میں نے اسی ماحول میں زندگی گزاری۔ 



لاہور کی ہیرا منڈی جو نوابوں اور امرا کا مسکن ہوا کرتی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ہیرا منڈی کی رونقیں بھی ویران ہوتی چلی گئیں۔ یہاں گانے بجانے اور ناچنے والیاں شہر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئیں۔ خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں اس علاقے کی ثقافت اور قدیم روایات کو تہس نہس کر دیا گیا۔ یہاں بسنے والے خاندانوں کو مجبوراً شہر کے دیگر علاقوں کا رخ کرنا پڑا اور ہیرا منڈی شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ آج لاہور کی ہیرا منڈی برائے نام رہ گئی ہے۔ ہیرا منڈی میں رقص و سرور کی محلفوں کے پردے میں جسم فروشی کا کاروبار ہوتا ہے۔ مختلف شہروں سے لڑکیوں کو یہاں صرف پیشے کے لئے لایا جاتا ہے۔ البتہ چند ایک گھروں میں آج بھی موسیقی اور رقص کی تربیت دی جاتی ہے اور رقص کی محافل ہوتی ہیں۔ 

Ustad Daman Di Bethak


اندرون ٹکسالی دروازے پنجابی زبان کے عظیم شاعر استاد دامن کا ڈیرہ بھی ہے۔ ٹکسالی مسجد کی زیریں منزل پر ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل یہ ڈیرہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کمرہ شاہ حسین کے نام سے منسوب ہے اور اسے حجرہ شاہ حسین بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ البتہ استاد دامن کے یہاں قیام کے وقت یہ بیٹھک علمی و ادبی درسگاہ کے طور پر جانی پہچانی جاتی تھی۔ فیض، حبیب جالب، سائیں اختر لاہوری، قمر یورش، اداکار محمد علی اور ملکہ ترنم نور جہاں سمیت فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی یہاں محفل سجتی تھی۔ جواہر لال نہرو نے بھی استاد دامن سے اس حجرے میں ملاقات کی تھی۔ مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاؤس کے بعد لاہور کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کی یہ سب سے اہم بیٹھک تھی۔ استاد دامن کی وفات کے بعد ان کے نام سے منسوب استاد دامن اکیڈمی کا قیام یہیں عمل میں آیا اور استاد دامن کے شاگرد سائیں اختر لاہور اس کے صدر بنے اور سائیں اختر لاہور کی انتقال کے بعد محمد اقبال محمد نے دامن اکیڈمی کے انتظامی امور سنبھالے۔ محمد اقبال محمد کا کہنا ہے اس بیٹھک کے دروازے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔ آج بھی یہاں ادب میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان یہاں آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور ہمیں لاہور کے ادبی کلچر کو زندہ رکھنا ہوگا۔ حکومت کی عدم توجہ کے باعث لاہور کی ادبی بیٹھکیں ویران ہوگئیں جنہیں پھر سے آباد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 



ٹکسالی دروازہ جو فنون لطیفہ اور ثقافت کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے وہیں پہلوانی میں بھی اس علاقے کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ برصغیر پاک ہند کے کئی نامور پہلوان اس علقے کے اکھاڑوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شاہی قلعہ کے جنوب کی طرف بجلی گھر کے قریب تکیہ مستان شاہ میں یہ اکھاڑہ واقع ہے۔ اس اکھاڑے کو کھائی والا اکھاڑہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلوانوں کے گروہ ’کالو والے‘ کا اکھاڑہ ہے۔ اس کھاڑے نے برصغیر کے بہترین شہ زور پہلوان پیدا کئے جن میں بوٹا پہلوان نے تقسیم سے قبل کئی نامور پہلوانوں کو پچھاڑا تھا۔ انہیں رستم ہند کہا جاتا تھا ، ہندو ستانی ریاستوں میں ان کی بہت عزت تھی۔ دنگل میں کسی سے ہار نہیں مانی، بڑے بڑے پہلوان ان کی شہ زوری کا لوہا مانتے تھے اور استادی کے قائل تھے۔ بوٹا پہلوان کے بعد چوہا پہلوان مرحوم ، مہنی پہلوان، گاموں پہلوان بالی والا اور گونگا پہلوان نے بھی اسی اکھاڑے سے فن کشتی کا آغاز کیا تھا۔ ان میں سے گونگا پہلوان ایسا نام ہے جس پر پاکستان کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ گونگا پہلوان، گاموں پہلوان بالی والا کے فرزند تھے اور بچپن میں تپ محرقہ کے باعث قوت گویائی سے محروم ہو گئے تھے اس لئے گونگا پہلوان کے نام سے مشہور ہو گئے۔ انہوں نے امام بخش پہلوان کو تاریخی دنگل میں پچھاڑا تھا۔ ان نامی پہلوانوں کے علاوہ اس اکھاڑے نے اور بھی پہلوان پیدا کئے جن میں جانی جی والا، جانی ڈنگر، ساجا گھگھو، ساجا کبابی، کالا خراسیہ، فرید پینٹر، برکت ناگاں والا، صدرو، محمد حسین، شیدا پہلوان اور عظیم پہلوان قابل ذکر ہیں۔


 عظیم پہلوان اس وقت پاکستان ریسلنگ ٹیم کے کوچ بھی ہیں اور اولمپکس گیمز میں متعدد تمغے حاصل کر چکے ہیں۔ لاہور کے چند آباد اکھاڑوں میں سے یہ سب سے با رونق اکھاڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک سے فن کشتی کا خاتمہ ہو رہا اور حکومت اس روایتی کھیل کی جانب توجہ نہیں دے رہی۔ یہاں کے پہلوانوں نے پوری دنیا میں نام روشن کیا لیکن آج محض چند مقامات ایسے ہیں جہاں روایتی کھیل کھیلا جاتا ہے۔


لاہور کے دیگر دروازوں کی طرح اندرون ٹکسالی دروازے بھی اشیا خوردونوش کے حوالے سے خاص مقام رکھتا ہے۔ ترنم سینما چوک پر مشہور سری پائے کی دوکان ہے۔ جو اس علاقے کی سوغات سمجھے جاتے ہیں۔ اس دوکان کے بالکل سامنے قدیم شاہجہانی مسجد ہوتی تھی جس کو گرا کر اب نئی مسجد تعمیر کی گئی اس کے ساتھ ہی مزار بابا نو گزے پیر ہے۔ 



اندرون شہر کے اس علاقے کی فضا کبھی عطر کی خوشبوؤں سے لبریز ہوتی تھی، کانوں میں رس گھولتی موسیقی کی آواز اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ گھنگھروؤں کی چھنکار ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ آج اندرون ٹکسالی کے گلیاں گندگی اور تعفن سے لبریز ہیں۔ گشت کرتی ہوئی پولیس کی ٹولیاں  ہیں اور دروازوں کی اوٹ سے جھانکتی آنکھوں میں خوف جھلکتا ہے۔ اب نہ گھنگھروؤں کی چھنکار سنائی دیتی ہے اور نہ رقص کا کوئی سامان مہیا ہے۔ بس چند دروازے ہیں اور ان کے اوٹ میں کھڑی گاہک کی منتظر آنکھیں



1 comment:

  1. Its vry ILuMinating.,i didnt knw abt TexaLi gAte this much.....
    Mehwish

    ReplyDelete