Saturday, May 28, 2011

علم و دانش کا گہوارہ .... جامعہ پنجاب




علم و دانش کا گہوارہ .... جامعہ پنجاب
انگریزعہد میں قائم کی گئی قدیم یونیورسٹی کے بارے میں رپورٹ


لاہور میں انگریز عہد میں بے شمار شاندار عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ سرخ اینٹوں سے مزین یہ شاندار عمارتوں میں سرکاری اور عبادت گاہیں شامل ہیں۔ گوتھک اور اینگلو مغل فن تعمیر کی عکاس ان عمارتوں نے لاہور کو ایک جدید شہر بنادیا تھا۔ انگریز عہد میں تعمیر ہونے والی ان خوبصورت عمارتوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی قدیم عمارت بھی شامل ہے۔ جو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت جانے بعد آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم دائم ہے۔

انارکلی کے قریب مال روڈ پر واقع جامعہ پنجاب کی قدیم عمارت انگریز عہد کا شاہکار ہے۔ جامعہ پنجاب پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے اور برصغیر میں مسلم اکثریتی علاقے میں قائم ہونے والی پہلی جامعہ ہے۔ اس دانش گاہ کا قیام 1882ءمیں عمل میں 
آیا ۔

ساٹھ کی دہائی میں طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور یونیورسٹی کو وسعت دینے کے غرض سے شہر سے باہر جامعہ پنجاب کا نیا کیمپس تعمیر کیا گیا اور جامعہ کے بہت سے شعبے نیو کیمپس میں منتقل کر دیئے گئے ۔ اب نیو کیمپس کے اردگرد لاہور کے نئے علاقے بن گئے جو اب شہر کا حصہ ہیں جیسے گارڈن ٹاون، فیصل ٹاون وغیرہ۔ دوسری جانب جامعہ پنجاب کا ایک کیمپس گوجرانوالہ میں بھی کھولا گیا ہے اور دوسرے شہروں کے لیے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ لاہور کے پرانے کیمپس کو علامہ اقبال کیمپس اور نئے کیمپس کو قائدِاعظم کیمپس کہا جاتا ہے جو ان کے سرکاری نام ہیں۔ جامعہ کا ایک ذیلی کیمپس خانس پور کے پہاڑی علاقے میں بھی قائم ہے مگر یہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہاں کوئی شعبہ مستقل بنیادوں پر قائم نہیں ہے۔ ان چار کیمپسوں کے ساتھ جامعہ پنجاب کی 13کلیات(فیکلٹیاں) ، 9 کالج اور 64 شعبے ہیں جبکہ اس کے الحاق شدہ کالجوں کی تعداد 434 ہے۔ جامعہ میں اساتذہ کی تعداد 700 سے زیادہ ہے اور طلباء کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہے۔

مال روڈ پر واقع جامعہ پنجاب کا قدیم کیمپس جو اب علامہ قبال کیمپس کہلاتا ہے برصغیر کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انگریز دور میں برصغیر کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں قائم ہونے والی یہ پہلی باقاعدہ یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے۔ اس دانش گاہ کا قیام ”لاہور گورنمنٹ کالج “ کے نام سے 1863ءمیں عمل میں آیا تھا ۔ جامعہ پنجابکے قیام کے بعد شمالی ہندوستان میں دیگر تعلمی ادارے اورئینٹل کالج(1865ئ) اور فارمین کرسچین کالج (1866ئ) کی بنیاد بھی پڑی۔ البتہ اس وقت ان تمام تعلمی اداروں کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ تھا۔ سید محمد لطیف پنجاب یونیورسٹی کے قیام کا سہرا یہاں کے عوام کو دیتے ہیں جنہوں نے اظہار رائے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ترسیل کے لئے یہاں تعلمی 
اداروں کے قیام پر زور دیا۔


”لاہور یونیورسٹی کالج“ کو 1869ءمیں یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔جامعہ پنجاب کی سینٹ کا پہلا اجلاس شملہ (موجودہ بھارت) میں ہوا جس میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ جب 1869ءمیں لاہور یونیورسٹی کالج کی توسیع ہوئی اور اس کا دائری عمل لاہور تک محدود نہ رہا بلکہ تمام صوبہ پنجاب کا تعلیمی نظام اس کے تحت لایا گیا تو پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 14اکتوبر 1882کو پنجاب یونیورسٹی پہلی مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ قانونی طور پر تسلیم کی گئی اور ایک مجلس انتظامیہ قائم ہوئی جسے سینٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب چارلز ایچیسن یونیورسٹی کے پہلے گورنر تعینات ہوئے۔ یہ برصغیر میں انگریز عہد کی چوتھی یونیورسٹی تھی۔ دیگر تین جامعات صرف امتحان لیتی تھیں مگر جامعہ پنجاب نہ صرف امتحانات لیتی تھی بلکہ ایک تعلیم دینے کی جامعہ تھی یعنی جامعہ پنجاب بجا طور پر برصغیر کی پہلی ایسی یونیورسٹی تھی جہاں باقاعدہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس سے پہلے ممبئی (سابقہ بمبئی)، مدراس(چنائی) اور کلکتہ میں جامعات تھیں۔

انیس سو دس تک پنجاب کے دس کالجوں کا جامعہ پنجاب کے ساتھ الحاق ہو چکا تھا۔ جن میں سینٹ سٹیفن کالج دہلی اور مہندر کالج پٹیالہ بھی شامل تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار بھی 
مقرر ہوئے تھے اور انہوں نے یونیورسٹی کے قیام اور اس کی تعمیر ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی عمارت جسے یونیورسٹی ہال بھی کہا جاتا ہے برصغیر کے معتبر ڈیزائنر بھائی رام سنگھ کی ڈیرائن کردہ ہے۔ یونیورسٹی ہال اینگلو مغل فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔ سرخ اینٹوں سے مزید بلندو بالا عمارت اور کلاک ٹاور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عمارت اینگلو مغل طرز تعمیر کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد 1905ءمیں رکھا گیا تھا۔ بلڈنگ کا حصہ مختلف سائز کے کئی گنبدوں پر مشتمل ہے جس میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے البتہ عمارت کے سامنے والے حصوں میں آچزکا استعمال کرتے ہوئے کے برآمدے تعمیر کئے گئے ہیں جو انگریز فن تعمیر کے عکاس ہیں۔ عمارت کے درمیانی حصے میں ڈیوڑھی کے اوپر بلند کلاک ٹاور ہے جبکہ دونوں اطراف چھوٹے مینار تعمیر کئے ہیں۔ جس کے باعث کلاک ٹاور کی شان و شوکت دوبالا ہو گئی ہے۔ کلاس ٹاور کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہے۔کلاک ٹاور کے اوپر کا حصہ اٹھکون شکل کا ہے جس کے اوپر گنبد نصب ہے۔ برآمدوں کی چھتیں چھوٹے گنبدوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ سرخ اینٹوں سے ایستادہ یہ عمارت اردگرد لگائے گئے درختوں اور سبزے میں اس دور کی امارت اور دلکش طرز تعمیر کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس حصے میں اب یونیورسٹی کے زیراہتمام کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن قائم ہے۔ کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن کا قیام بطور فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ 1940ءمیں ہوا تھا، اس کے قیام میں ملک کی نامور مصورہ اینا مولکا احمد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور وہ عرصہ دراز تک اس شعبہ کے ساتھ منسلک رہیں تھیں۔ 1942ءمیں یہاں بی اے اور 1955ءمیں ایم اے کی کلاسوں کا اجراءہوا۔ 1964ءمیں ایم ایف اے اور بی ایف اے گرافک ڈیزائن کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ 1998ءمیں کو انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دے دیا گیا اور گرافک ڈیزائن میں ایم ایف اے، بک السٹریشن ، گرافک پرنٹ میکینگ، پینٹنگ اور ایم اے پینٹنگ کا آغاز ہوا۔ 2003ءمیں یہاں ڈاکٹریٹ پروگرام شروع ہوا اور 2004ءمیں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت اس کالج کے زیراہتمام چھ شعبہ جات کام کر رہے ہیں اور ہر شعبہ تین ڈگری پروگرام کروارہا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ ہال 1876ءمیں تعمیر ہوا۔ یہ ہال پنجاب یونیورسٹی کے اعلیٰ ارکان کے اجلاس کے لئے تعمیر کیا گیا۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ مقصد کے اجلاس یہاں منعقد ہوتے تھے اور اب بھی اعلیٰ سطحی اجلاس یہیں منعقد کئے جاتے ہیں۔ سینٹ ہال کی عمارت جو 1876ءمیں تعمیر ہوئی تھی 1882ے سینٹ کے اجلاس کے لئے مخصوص کر دی گئی۔ ’نقوش لاہور نمبر‘ کے مطابق سینٹ ہال کی تعمیر ’تاریخ لاہور‘ کے مصنف رائے بہادر کنیا لال ایگزیکٹو انجیئر کے اہتمام ہوئی۔ اس عمارت پر چونتیس ہزار روپیہ صرف ہوا۔ سینٹ ہال پر ہزہائینس نواب صاحب بہاولپور کا نام کنندہ ہے۔ اس لئے کہ یہ عمارت نواب صاحب بہاولپور کا عطیہ ہے اور انہیں کے روپیہ سے یہ عمارت بنی ہے۔ سینٹ ہال کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ کا بنایا ہوا ہے۔ لاہور میں انگریز دور کی بیشتر عمارتوں کا ڈیزائن سر گنگا رام کا تیار کر دہ ہے لیکن اس حوالے سے بھائی رام سنگھ کی خدمات بھی ناقابل ستائش ہیں۔ انہوں نے گنگا رام کے ساتھ کئی اہم عمارتوں کو ڈیزائن کیا تھا۔ لاہور میں انگریز عہد کی تقریباً نوے فی صد اہم عمارتوں کے ڈیزائن بھائی رام سنگھ اور گنگا رام کی کاوشیں ہیں۔

نقوش لاہور نمبر کے مطابق سینٹ ہال کے عمارت پختیہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہے اور بقول کنہیا لال اس کا طول 128فٹ اور عرض80 فٹ ہے۔ ستونوں اور محرابوں میں بڑی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور باقی حصوں میں معمولی سائز کی اینٹیں لگائی گئی ہیں۔ باہر سے اس ہال رنگ سرخ اور اندر سفید پلاسٹر ہے۔ چھت کے اوپر سلیٹ کا پتھر لگا ہے۔ شہتیر دیودار کے ہیں۔ سینٹ کا بڑا کمرہ 71فٹ لمطا اور 24 فٹ چوڑا ہے اور دوسرا کمرہ مغربی سمت 49 فٹ چوڑا اور 20 فٹ لمبا ہے۔ ان سے ملحق بھی کئی چھوٹے بڑے کمرے ہیں ۔ سینٹ ہال کے برآمدے وسیع ہیں ۔ ماضی میں یہاں سینٹ کے جلسوں کے علاوہ علمی اور ادبی جلسے اور مشاعرے بھی ہوتے رہے ہیں ۔


پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی لائبریری بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ 1873ءمیں کالج کے سر ڈونلڈ میکلوڈ کے ذخیرہ کتب کو پچیس سو روپے میں لائبریری کے لئے خریدا۔ اس ذخیرے میں دوہزار کتب شامل تھیں۔1882ءیونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد میں قائم کی گئی تھی لیکن اس کا صحیح معنوں میں قیام اور تنظیمِ 1912ءمیں عمل میں آئی جب لائبریری کی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیاد پنجاب یونیورسٹی کے اس وقت کے چانسلر لیفٹیننٹ گورنر سرلوئیس ڈین نے 27فروری 1911ءکو رکھا تھا اور اپریل 1912ءکو انہوں نے ہی اس کا افتتاح کیا۔ نقوش لاہور نمبر کے مطابق یونیورسٹی لائبریری کے سنگ بنیاد رکھنے کے ایک ماہ بعد ہی لائبریری کو غیر متوقع ذریعے سے ایک بہت ہی بیش قیمت ذخیرہ مل گیا۔ مسٹر ایم ایچ، پرسیول، ایم ، آیی، ایس، پریذیڈنسی کالج کلکتہ میں انگریزی ادب کے پروفیسر تھے۔ 1911ءمیں جب وہ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے اپنی چھ ہزار پانچ سو کتابوں کا ذکیری جو انہوں نے چھتیس ہزار روپے کی کثیر رقم سے اکٹھا کیا تھا لائبریری کی نذر کر دیا۔ یہ ذخیرہ تب سے ایک علیحدہ سیکشن کی صورت میں قائم ہے۔ اس مجموعہ میں فلسفہ، ادب اور شاعری پر بیش بہا اور قابل قدر تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1913ءمیں آغا محمد ابراہیم نے اپنے والد شمس العلما ءمولوی محمد حسین آزاد کی 1556کتابوں اور 389مخطوطات کا مجموعہ ہدیتہً لائبریری منتقل کر دیا یہ ذخیرہ زیادہ تر عربی پر مشتمل تھا۔ سر ایڈورڈ میکیگن جو 1919ءسے 1924ءتک یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے تھے انہوں نے بھی 389بہت ہی بیس قیمت جرائد لائبریری کو پیش کئے۔ اس دوران کتبا جو جمع ہوتی گئیں ان کی تنظیم و ترتیب 1916ءمیں مسٹر اے سی ڈکنسن نے کی جو لائبریری سائنس میں ایک امریکی ماہر تھے۔ یہ ترتیب ڈیوی ڈیسیمل کلاسیفکیشن سکیم کے مطابق کی گئی ، انہوں نے لائبریری کورس کا اجراءبھی کیا۔ مارچ 1929ءمیں پیرزادہ محمد حسین809کتابیں اور 165قلمی مسودات اور مئی 1934ءمیں پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی نے 759کتب اور125علمی کتابیں لائبریری کے سپرد کیں۔ اپریل1944ءمیں سر شہاب الدین کی چار ہزار کتب لائبریری کو ملیں۔ قیام پاکستان کے بعد یونیورسٹی لائبریری میں اور بھی اضافہ ہوا کیونکہ بہت اچھے اچھے ذاتی کتب خانے مثلاً سر منوہر لال کے کتب خانے کی 2154کتب اور پروفیسر برج نرائن کی 2380 کتب یونیورسٹی لائبریری منتقل کر دی گئیں۔ اسی طرح سر گنگا رام کی پانچ ہزار کتابیں ، مولوی محبوب عالم کی چھ ہزار پانچ سو کتب ، حکیم عبدالمجید عتیقی کی اٹھارہ سو کتب، پروفیسر محمد اقبال کی فلسفہ الہٰیات اور مذہب پر 1713کتب ، میاں احمد شفیع کی 1113کتب، پروفیسر ایم جی سنگھ کی دوہزار کتب کے مجموعے اس لائبریری کو حاصل ہوئے۔ علاوہ ازیں حافظ محمود شیرانی کی سترہ سو قلمی کتب کا نہایت قابل قدر ذخیرہ بھی اس لائبریری میں منتقل ہوگیا۔ 1988ءتک پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری یہیں قائم تھی بعدازاں اسے نیو کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ البتہ اس وقت بھی یہاں کتابوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔
پنجاب یونیورسٹی علامہ اقبال کیمپس کے اس حصے میں جہاں لائبریری اور سینٹ ہال ہے وہیں پنجاب یونیورسٹی کا کالج آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی قائم ہے۔ جہاں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس شعبہ کا قیام 1988ءمیں بطور کمپوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ عمل میں آیا تھا بعدازاں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنسز کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ پنجاب کالج آف انفامیشن ٹیکنالوجی کے ایک جانب شعبہ ہندی قائم ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے قیام کی پچیس سالہ تقریبات کے سلسلے میں 1933ءمیں پنجاب یونیورسٹی کے ایک نئے بلاک کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ جسے پنجاب یونیورسٹی یونین سوسائٹی کا نام دیا گیا۔ اس کا سنگ بنیاد 5 اکتوبر 1933ءکو سر میاں فضل الحق نے رکھا۔ وہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اس ہال کو کالج کے وائس چانسلر الفریڈ سی وولنر کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اب عمارت میں پنجاب یونیورسٹی کا کالج آف فارمیسی قائم ہے۔ فارمیسی کے ڈیپارٹمنٹ کو 1979ءمیں فکیلٹی کا درجہ دے دیا گیا تھا جبکہ اب اس کو پنجاب یونیورسٹی کالج آف فارمیسی کا درجہ حاصل ہے۔ اس ادارے کو چار شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں فاماسیوٹکس، فارماکیولوجی، فارماسیوٹیکل کیمسٹری اور فارماکوگنوسی شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری اور انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجیئرنگ اینڈ نیکنالوجی کے قائداعظم کیمپس میں منتقل ہوجانے کے بعد فارمیسی کالج کو کثیر حصہ میسر آگیا اور یہاں جدید لیباٹریز، لائبریری اور لیکچر تھیٹر کا قیام عمل آیا۔ اس کالج میں گریجویشن لیول پر فارمیسی کی تعلیم کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کروائی جارہی ہے۔

وولنر ہال اور سینٹ ہال کے درمیان ڈپارٹمنٹ آف اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام اور ڈیپارٹمنٹ آف سپورٹس سائنسز اینڈ فزیکل ایجوکیشن قائم ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ آف اردو انسلائیکوپیڈیا آف اسلام کے قیام کے بارے میں پہلی بار 1938ءمیں فیصلہ کیا گیا جب انگریزی انساکلوپیڈیا آف اسلام کی ایڈیشن کی تکمیل کے بعد یہ خیال کیا گیا کہ دنیا کے تمام اہم زبانوں میں اس نوعیت کا کام کیا جا چکا ہے لیکن اردو اس سے محروم ہے۔ لہذا اس کام کا بیڑا نامور سکالرز پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع اور ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے اٹھا جن کا تعلق اورئینٹل کالج سے تھا۔ البتہ اس شعبہ کا باقاعدہ آغاز 1950ءمیں ہوا۔ اس ضمن میں انسائیکلوپیڈیا کا پہلا حصہ 1992ءمیں مکمل ہوا جو 24والیمز (26حصے) پر مشتمل تھا اور اس میں اسلام اور مسلم دنیا سے متعلق 9973مختلف مضامین شامل تھے۔ اس کے علاوہ تحقیق اور تراجم کے شعبہ میں بھی بیش بہا خدمات سرانجام دی جا رہی ہے۔


پنجاب یونیورسٹی کی قدیم عمارت کے باہر مال روڈ ڈاکٹر الفریڈ کوپر وولنر کا مجسمہ نصب ہے۔ یہ لاہور میں انگریز عہد کا واحد مجسمہ ہے جو ابھی تک اپنی شان و شوکت کے ساتھ نصب ہے۔ الفریڈ وولنر پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ عرصہ دراز تک منسلک رہے تھے ۔ وہ سنسکرت کے استاد تھے اور ان کے پاس قدیم سنسکرت اور ہندی زبان کے پچاسی ہزار سے زائد قلمی نسخوں کا ذخیرہ جمع تھا۔ انہوں نے اس دانش گاہ کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1902ءسے لیکر 1928ءتک اعزازی لائبریرین کے طور پر خدمات سر انجام دیتے تھے ۔ 1903ءکو وہ یونیورسٹی رجسٹرار اور اورئینٹل کالج کے پرنسپل تعینات ہوئے اور 1928ءسے 1936ءتک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔


Tuesday, May 24, 2011

King Edward Medical University, Lahore





King Edward Medical College, constructed in 1860 has a very long tradition of excellence going back to over 140 years. This is the second oldest seat of medical learning in the subcontinent, the first being in Calcutta. King Edward Medical College is even older than the University of the Punjab, the latter being established in 1870 as the Punjab University College. The university status was granted in 1882.

In August, 1860, Dr. J.B. Scriven of the General Hospital in Calcutta was invited to become the Principal of the proposed Lahore Medical School, which was to be the second such Institution in Indo Pakistan Sub-Continent. In keeping with the modest beginning, the newly created institution was designated as Lahore Medical School and started functioning in Artillery Barracks at the present site of the Government College, with a Hospital located in a foreign stable near the present Tibbi Police station in Taxali Gate, almost a mile away from the college. This arrangement according to Dr. Scriven was most inconvenient and insufficient for the needs of the community.

A total of 49 students were admitted (44 in Hindustani Classes and 5 in English Classes) following Matriculation examination in 1860. The only posts sanctioned by the Government in the beginning were those of the Principal, who started teaching Anatomy, Physiology; and a Professor (Dr. T.E. Burton Brown) who commenced his lectures on Chemistry, Materia Medica and Botany. The school soon gained in popularity which was evidenced by the steady increase in the member of students which rose to 40 by the year 1870 in English Classes and 87 in the Hindustani Classes. 27 students passed the native Doctor's Examination in 1863 and one student by the name of John Andrews passed the Sub-assistant Surgeons examination in 1865.

Until 1870, the Medical School had been granting its own diplomas to Sub-assistant Surgeons and native doctors. With the opening of the Punjab University College that year, it was arranged so that the new College would undertake the conduct of examination and granting of University diplomas. The first such examination was held in October, 1871 by Diploma in Medicine. During the next 13 years the Punjab University College awarded diplomas to 145 successful students. It is matter of interest to note that the Medical College has a longer history than the University of the Punjab, and the relationship between the two has always been cordial and cooperative. The College was then as now independent in all affairs in teaching and administration except for conducting examinations.

In 1870, the construction of the attached teaching hospital was completed and was named after the then Viceroy of India, Lord Mayo (Mayo Hospital). The first building of the Medical School was built in the same style as the Mayo Hospital. It was completed in 1883. The next year, a nursing class was also started. Women students were allowed to register for regular courses in the same class as men for the first time. J.E. Hilton Executive Engineer, Lahore designed and constructed a new dissection room in 1887. In 1891, the Licentiate Diploma was re-designated as Bachelor of Medicine and Bachelor of Surgery (MBBS). A building housing the Post- mortem theatre and a small two room Pathology laboratory was built in 1895.

During 1910-1915, new buildings were constructed from King Edward Memorial Funds, and with the Sovereign’s permission named King Edward Medical College.


Text: ualberta
Photos: Shiraz Hassan




Friday, May 20, 2011

Censorship in Pakistani Urdu Textbooks







Suppression of dissent and criticism has always been an active force in Pakistani society. Journalists and creative writers have had to struggle hard to find their way around or across many laws threatening to punish any deviation from the official line on most vital issues. The authorities’ initiative to impose censorship through legislative means dates back to the Public Safety Act Ordinance imposed in October 1948, and later, in 1952, ratified by the first Constituent Assembly of Pakistan as the Safety Act.Apart from numberless political workers, newspapers, and periodicals, the leading literary journals too fell victim to this oppressive piece of legislation which was only the first in a long series of such laws. In fact, Savera (Lahore) has the dubious honor of being the first periodical of any kind to be banned, in 1948, under this very Public Safety Act Ordinance.

This legal device was also invoked to suspend two other Lahore-based literary periodicals—Nuqoosh and Adab-e Latif—for six months and to incarcerate the editor of Savera, Zaheer Kashmiri, in 1950, without even a trial. (See Zamir Niazi, The Press in Chains, Karachi: Karachi Press Club, 1986, pp. 38 and 50.)

The infamous Safety Act had well-known literary people on both sides. On the one hand, literary critics such as Muhammad Hasan Askari found the law perfectly justifiable—indeed, they even praised it. (For details, see Muvammad Hasan Askari, Takhliqi Amal aur Usloob, collected by Muhammad Suheyl Umar, Karachi: Nafis Academy, 1989, pp. 95–116. This is a collection of Askari’s monthly columns which appeared in the literary periodical Saqi–published from Delhi until June 1947, and subsequently from Karachi–under the general title of “Jhalkiyan”.) On the other hand, there were writers and editors who were prosecuted under this law, Saadat Hasan Manto perhaps being the most prominent among them. (For details of Manto’s trials, see his Lazzat-e Sang, Lahore: Naya Idara, 1956.) Manto’s writing had had a history of attracting the wrath of the authorities for its downright honest and realistic portrayal of life and its stinging moral and political comment. He had been prosecuted under the British colonial government for publishing the short stories “Dhuvan” and “Kali Shalvar.” Individuals such as Chaudhry Muhammad Husain of the Press Branch, Government of Punjab—immortalized by Manto in the dedications of two successive editions of his collection Lazzat-e Sang—were always eager to assist the authorities in this respect. Having decided on intolerance of any moral or political comment almost from the moment the new state came into being, the Pakistani authorities have since kept it alive and have never felt the need to relax it. Consequently, there has been a long series of unjust laws and practices intended to suppress freedom of thought and expression, irredeemably crippling any tradition of dissent in the society. Especially regrettable is the fact that people like Chaudhry Muvammad Husain and Muhammad Hasan Askari have always come forward to lend a helping hand to the authorities by providing legal and ideological support in stilling any expression of dissent.

The socially and intellectually stifling environment which obtained early in the life of the newly-created state coincided with another factor: Pakistan’s political dependence on the United States, itself experiencing the worst kind of repression under McCarthyism. During the Cold War years, Pakistan openly sided against the Soviet Union and thus, ostensibly to counter the threat from the north, found a convenient excuse to muzzle political and social criticism of any kind. Over the long haul, this intolerance has irrevocably injured the social and moral fabric of Pakistani society in a number of ways.

A particularly harmful expression of this intolerant and myopic policy has been felt in the field of education, more specifically in the preparation and dispensation of textbooks for Pakistani students. Once every voice capable of offering an alternative view had been effectively silenced, the field was left wide open for the imposition on students—without any threat of challenge from any quarter—of an anemic and distorted viewpoint through officially produced textbooks. Thus, according to Dr. K.K. Aziz, a noted Pakistani historian:

“Since the early 1960s, the planning, preparation and publication of all textbooks for classes 1–12 are the responsibility of the Textbook Boards, of which there is one in each province. These bodies are created and controlled by the provincial Department of Education, and their personnel is recruited from the provincial education service. Their textbooks are generally written by a team of authors, then corrected and supervised by another person or group of persons, and finally edited by another individual. Then the manuscript is submitted to the National Review Committee of the Ministry of Education of the Government of Pakistan, which checks its accuracy and approves of its ‘ideological’ content. When the book has been published, it is prescribed by the Provincial Government as the ‘sole textbook’ for the relevant class in all the schools of the province.” (K.K. Aziz, The Murder of History in Pakistan, Lahore: Vanguard Books
(Pvt.) Limited, 1993, p.1.)

In his commendable work, aptly named The Murder of History in Pakistan, Dr. Aziz has painstakingly carried out a detailed analysis of the revolting mixture of half-truths, distorted facts, harrowing omissions, blatant lies, and ugly governmental propaganda dished out as “history” to scores of unsuspecting students. One notes, with some sadness but little surprise, that the same unethical principles govern the preparation of textbooks meant to be used for the instruction of students in, for instance, Urdu. It would have been interesting to analyze the many successive revisions—inclusions and deletions—made in Urdu textbooks in the course of the past several decades, but no one has, as yet, risen to the task of replicating Dr. Aziz’s minute scrutiny and close content analyses. Once in a while, though, the Textbook Boards do drop in a hint sufficient to give an idea of what actually goes on in preparing the Urdu textbooks.

Why these occasional revisions? What could be their underlying reasons? Monetary, one suspects: to provide the Board’s favorites the opportunity to make some extra cash as compilers, editors, publishers, and printers.

But the reasons need not be so mundane. In an ideological state such as Pakistan, the revision of history to further the aims of those who happen to be in power at a given time should surprise no one. The rewriting of texts is not limited to the technically non-existent subject of “history” alone. It frequently spills over into other fields as well—for instance, literature. Needless to say, the respectable compilers and editors, contracted by the Board for the purpose, tacitly know what is expected of them, their submissive and unquestioning cooperation matched only by officials working for government departments such as the Press Branch, the Press Information Department, etc. Let me illustrate my point with an example: the Urdu textbooks for eleventh and twelfth classes, issued under the auspices of the Sindh Textbook Board, have recently seen new incarnations as Gulzar-e Urdu, Part I and Part II, respectively.

(Gulzar-e Urdu, Part I, 2nd ed., Jamshoro: Sindh Textbook Board, November 1993. The anthology is compiled by: Dr. Aslam Farrukhµ, Dr. Abdul Haq Hasrat Kasganjvi, Shahid Ishqi, Saiyid Sajid Husain Rizvi, Saqi Javaid, and Muhammad Nazim Ali Khan Matlavi; it is edited by Dr. Abdul Haq Hasrat Kasganjvi and Muvammad Nazim Ali Khan Matlavi; and it was approved by the Federal Ministry of Education (Syllabus Department), Government of Pakistan, Islamabad, as the “sole” (vahid) textbook for higher-secondary colleges in the Province of Sindh. Gulzar-e Urdu, Part II, 1st ed., Jamshoro: Sindh Textbook Board, July 1994. The anthology is compiled by: Dr. Abdus Salam, Dr. Abdul Haq Hasrat Kasganjvi, Shahid Ishqi, Khalid Vahab, and Muhammad Nazim Ali Khan Matlavi; it is edited by Dr. Abdul Haq Hasrat Kasganjvi and Muvammad Nazim Ali Khan Matlavi; and it was approved by the Federal Ministry of Education (Syllabus Department), Government of Pakistan, Islamabad, as the “sole” (vahid) textbook for higher-secondary colleges in the Province of Sindh.)

I would like to give three significant examples of this process of officially sanctioned revisionism—two examples that appear in Part I of the Gulzar, and one more, in some detail, from Part II. My aim is to show that literary texts are unhesitatingly censored, without any kind of indication or explanation, to make them conform to the official outlook.

In Part I, Premchand, who was included in the textbook for Class XI before it was revised, has been dropped altogether. Given his pioneering contribution to the development of modern Urdu fiction, one can think of no reason for Premchand’s exclusion except that he was a non-Muslim. This exclusion may be regarded as analogous to attempts made by several literary historians and critics who, ashamed or unable to accept a Hindu as the first short story writer of Urdu, have replaced him with a writer of more acceptable beliefs, if not of comparable merit. Lacking both the means and the intention to defend Premchand against these learned efforts, I would nevertheless point to his more secure status as the first Urdu fiction writer of any consequence. The other victim of the revisionist hatchet in Part I is Khvaja Hasan Niizmi. In his case, certain key words and phrases have been unwarrantedly removed from his piece “Thhele-wala Shahzada.” Obviously, it was unwise on the part of the Khvaja to have used such words and phrases as “sharab” (wine), “makhmoor” (drunk), “tava’if” (prostitute), and “‘ayyash panjabi saudagar” (hedonistic Punjabi businessman) in his story which was one day destined to be used for teaching Urdu in an Islami Mamlikat. The compilers and editors of the revised textbook, who apparently attach more respect to the integrity of official dogma than to the integrity of a literary text, have expelled these words and phrases even at the expense of comprehensibility of the story line. The original sentence

اُس موٹر میں ایک پنجابی سوداگر، جوانی اور شراب کے نشے میں مخمور، کسی بازاری عورت کو لیے بیٹھا تھا۔

उस मोटर में एक पंजाबी सौदागर, जवानी और शराब के नशे में मखमूर, किसी बाजारी औरत को लिए बैठा था.

has been changed to read:

اُس موٹر میں ایک سوداگر اور عورت بیٹھے تھے۔

उस मोटर में एक सौदागर और औरत बैठे थे.

In the next paragraph, the adjective “makhmoor” has been censored before the word “naujavan,” and the words “sharabi ayyash” have been replaced by “naujavan.” Further on, the phrase “motor-nasheen tava’if” has been Islamized as ‘‘motor-nasheen aurat.” (For the original text of Khvaja Hasan Nizami’s story “Thhele-wala Shahzada,” see Begamat ke Aansu, Lahore: Khvajagan Publications, 1988, pp. 142–51.) As would be expected, no indication of this editing has been provided anywhere in the book.

The case of Gulzar-e Urdu, Part II, is even more intriguing. One is surprised to find that the Board has, suddenly and for no fathomable reason, decided to posthumously honor Saadat Hasan Manto, the enfant terrible of Urdu fiction, by including one of his stories in the textbook for Class XII. What is less surprising, however, is the fact that both the Board and the team of compilers and editors faithfully serving it have not lost sight of the ideological principles guiding the preparation of course materials for students. It would appear that on including one of Manto’s (and Urdu fiction’s) masterpieces, “Naya Qanoon ” (The New Constitution), they have subjected it to a careful reading, using their censor’s blue pencil to neutralize what they probably considered the fictional text’s potentially corrupting influence on the innocent minds of second-year college students.

Some insight into the kinds of considerations uppermost in the minds of the textbook censors may perhaps be gained by looking at the passages expunged from the story of the hapless Mangu kochvan (the tongacarriage driver)—passages thought unfit for impressionable college students. I quote below the relevant passages from Khalid Hasan’s translation of the story, with deleted portions appearing in italics, followed by brief comments pointing to possible reasons for each deletion. (For the English translation, see Saadat Hasan Manto, “The New Constitution,” in his Kingdom’s End and Other Stories,” tr. by Khalid Hasan, London and New York: Verso, 1987, pp. 83–92; for the original in Urdu, see “Naya Qanoon,” in his Mantorama, Lahore: Sang-e Meel Publications, 1990, pp. 707–19.)

One day he [Mangu] overheard a couple of his fares discussing yet another outbreak of communal violence between Hindus and Muslims.

That evening when he returned to the adda, he looked perturbed. He sat down with his friends, took a long drag on the hookah, removed his khaki turban and said in a worried voice: “It is no doubt the result of a holy man’s curse that Hindus and Muslims keep slashing each other up every other day. I have heard it said by one of my elders that Akbar Badshah once showed disrespect to a saint, who cursed him in these words: ‘Get out of my sight! And, yes, your Hindustan will always be plagued by riots and disorder.’ And you can see for yourselves. Ever since the end of Akbar’s raj, what else has India known but riots!” (p. 83)

اُس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیرمعمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حقے کا دور چلتے چلتے جب ہندومسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا: ’’یہ کسی پیر کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقوچھریاں چلتی رہتی ہیں۔ اور میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی: جا، تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔ اور دیکھ لو، جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے، ہندوستان میں فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

The entire second paragraph has been deleted. This is in line with the official policy to present the Hindu-Muslim riots in the erstwhile united India as a one-way affair and the Muslims as innocent victims and never as equal, or equally enthusiastic, partners in the game of riots.

He took a deep breath, drew on his hookah reflectively and said:
“These Congressites want to get India its freedom. Well, you take my word, they will get nowhere even if they try for a thousand years. At the most, the Angrez will leave, but then you will get maybe the Italywala or the Russian. I have heard that the Russiawala is tough. Hindustan, I can assure you, will always remain enslaved. Yes, I forgot to tell you that part of the saint’s curse on Akbar was that India will always be ruled by foreigners.” (pp. 83–84)

یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی: ’’یہ کانگریسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں، اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا، یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں، میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بددعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘

This whole paragraph too is not to be found in the Gulzar version. The reason seems simple enough. Laughable as it may sound, the official history in Pakistan never credits the Indian National Congress with wanting—let alone struggling for—India’s freedom. The fact that India was ruled by foreigners might also have encouraged dangerous thinking in the minds of the students—who knows!

He then went into a detailed description of the changes the new constitution was going to bring to India. “You just wait and see. Things are going to happen. You have my word, this Russian king is bound to show them his paces.”

Ustad Mangu had heard many stories about the Communist system over the years. There were many things he liked about it, such as their new laws and even newer ideas. That was why he’d decided to link the king of Russia with the India Act. He was convinced that the changes being brought in on 1 April were a direct result of the influence of the Russian king. (p.86.)

دورانِ گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا، ’’تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے۔ یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کر کے رہے گا۔‘‘

استاد منگو موجودہ سوویٹ نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو تبدیلیاں ہونے والی تھیں، وہ انھیں روس والے بادشاہ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔

Not much insight is needed to figure out why this paragraph was considered unsuitable for students. Throughout the Cold War, the Communist Party had been banned and severely suppressed in Pakistan. The mere mention of its name was considered taboo by the authorities. The official attitude appears to have survived the disintegration of the Soviet Union.

For some years, the Red Shirt movement in Peshawar had been much in the news. To Ustad Mangu, this movement had something to do with “the king of Russia” and, naturally, with the new Government of India Act. There were also frequent reports of bomb blasts in various Indian cities. Whenever Ustad Mangu heard that so many had been caught for possessing explosives or so many were going to be tried by the government on treason charges, he interpreted it all as a curtain-raiser for the new constitution. (pp.86–87.)

کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں روس والے بادشاہ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا۔ اس کے علاوہ جب وہ کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا تھا۔

The reference to the Red Shirt movement, led by Abdul Ghaffar Khan of the North West Frontier Province (NWFP), points to the political atmosphere of the province during the 1940s. As a result of this political atmosphere, the All India Muslim League failed to win a majority in NWFP’s 1946 provincial elections or to have NWFP support the demand for Pakistan. Nevertheless, NWFP was made a part of Pakistan, the elected provincial government was dismissed, and a referendum was held, the credentials of which remain doubtful to many. The Red Shirt movement was banned and its workers were severely persecuted. No mention is made of the existence of any such movement in the official history of Pakistan. Manto has pointed to these later events in a few other places in his stories and essays.

Ustad Mangu was one of those people who cannot stand the suspense of waiting. When he was going to get his first child, he had been unable to sit still. He wanted to see the child even before it was born. Many times, he had put his ear over his wife’s pregnant belly in an attempt to find out when the child was coming or what was he like, but of course he had found nothing. One day he had shouted at his wife in exasperation.

“What’s the matter with you? All day long you’re in bed like you were dead. Why don’t you get yourself out, walk around, gain some strength to help the child be born? He won’t come this way. I can tell you.”

Ustad Mangu was always in a hurry. He just couldn’t wait for things to take shape. He wanted everything to happen immediately. Once his wife Gangadai had said to him: “You haven’t even begun digging the well and already you are impatient to have a drink of water.” (p. 89)

جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بےقراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا، مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے، اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسے غیرمغلوب خواہش کے زیراثر اس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبادبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آ گیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔

’’تو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اٹھ، ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہوسکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘

استاد منگو طبعاً بہت جلدباز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہشمند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگادئی اس کی اس قسم کی بےقراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی: ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بےحال ہو رہے ہو۔‘‘

These three entire paragraphs have been cut out. Part of the reason may well be that students in Pakistani colleges are not supposed to learn that babies are made in women’s bellies. But there is another point which might well have been considered offensive: Mangu’s wife’s name, Gangadai, is an obviously Hindu name—unlike Mangu’s, which can equally well apply to a Muslim or a Hindu.

This morning he was not as impatient as he normally should have been. He had come out early to view the new constitution with his own eyes, the same way he used to wait for hours to catch a glimpse of Gandhi and Pandit Jawaharlal Nehru.

Great leaders, in Ustad Mangu’s view, were those who were profusely garlanded when taken out in procession. And if there were a few scuffles with the police during the proceedings, the man went up even further in Ustad’s estimation. He wanted to see the new constitution brought out with the same razzle-dazzle. (Ibid.)

کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بےقرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا، ٹھیک اُسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہرلال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔

لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا، اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔

Here, again, both paragraphs have been subjected to the chopping block. And understandably. The names of the Congress leaders, such as Gandhi and Nehru, are anathema to most Pakistanis and are not mentioned in Pakistani textbooks except in an openly derogatory or grossly inaccurate manner.

Ustad Mangu was trying to work out if the present system of allotting tonga number plates would change with the new dispensations, when he saw a gora soldier standing next to a lamp post. […]

“Where do you want to go?” Ustad Mangu asked, not unforgetful [sic] of the fact that there was a new constitution in force in India now.
“Hira Mandi, […]” the gora answered. (pp. 90-91)

وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے نئے طریقوں پر غور کر رہا تھا اور اس قابل غور بات کو آئینِ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اسی سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اُسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اُسے سڑک کے اُس طرف، دور، بجلی کے کھمبے کے پاس، ایک گورا کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ ہلا رہا تھا۔

خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگا موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکتے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگا ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا:

’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوے، گورے سے کہا، ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
گورے نے جواب دیا، ’’ہیرامنڈی۔‘‘

This, perhaps, is the most masterful stroke of the blue pencil. By striking out the word “hira” from “Hira Mandi” (literally, “diamond market”), the name of the famous red-light district of Lahore, the textbook censors have managed to remove the sting. Having been metamorphosed to “mandi,” it may well be the fruit or grain market that the poor gora soldier was trying to reach.

The above exercise points to a clear and simple conclusion: to be accepted for inclusion as or in a textbook, a literary text must be made ideologically and politically acceptable, regardless of the injury this may do to its intent and artistic value. The teachers commissioned to prepare or revise textbooks for the Board, themselves harboring literary pretensions in some cases, are not in the least doubtful about the political preferences of the state. That they voluntarily lend their services for this purpose, even at the cost of mutilating literary texts, is clear from the fact that, as personnel of the Education Department, they are not obligated to participate in the preparation of textbooks. But they do—willingly. Indeed, they spend a lot of time and effort in obtaining these coveted assignments—assignments that entail some extra income, too. The example of the treatment afforded to Premchand, Khvaja Hasan Nizami, and Manto raises serious questions about the moral and intellectual integrity of the officials—especially teachers—serving the State of Pakistan. More regrettably still, it leaves no room for any optimism about the future. A generation fed on deficient knowledge and false or skewed or distorted or truncated views of history is unlikely one day to manage the affairs of the country with any forthrightness, pride, or honesty.



Thursday, May 19, 2011

فنون لطیفہ کا مسکن .... نیشنل کالج آف آرٹس



 فنون لطیفہ کا مسکن .... نیشنل کالج آف آرٹس
برصغیر کے تاریخی تعلیمی ادارے کے حوالے سے رپورٹ



لاہور کی مال روڈ پر زمزمہ توپ کے سامنے درختوں کی اوٹ میں چھپی ہوئی سرخ اینٹوں سے ایستادہ نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس  مال روڈ پر لاہور عجائب گھر اور ٹائون ہال کے درمیان انارکلی کے پاس واقع ہے۔ اس کو جدید مغلیہ طرز پر تعمیر کیا گیا اور اس میں انگریز فن تعمیر کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس کا شمار خطے کے بہترین آرٹس کالجوں میں کیا جاتا ہے۔ اپنے قابل قدر طلبا، اساتذہ اور شاندار فن تعمیر کے باعث اس کالج کو برصغیر 
کے دیگر تعلمی اداروں میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

نیشنل کالج آف آرٹس کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں  لاہور سکول آرٹس کے نام سے رکھی گئی ۔ بعدازاں    وائسرائے  ہند لارڈ میو کو خراج تحسین دینے کے غرض سے  اس کا نام میو سکول آرٹس رکھ دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی عرصہ دراز تک اسے میو سکول آف آرٹس کے نام سے پکارا جاتا رہا ۔ 1958ئ میں میوسکول آف آرٹس کو تبدیل کرکے  نیشنل کالج آف آرٹس کا درجہ دے دیا گیا۔

 وائسرائے ہند لارڈ میو کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان شیرِعلی نے1872ئ  میں جزائر انڈیمان کے اْن کے سرکاری دورے کے دوران قتل کردیا تھا۔ شیر علی پنجاب پولیس کا ملازم تھا اور اس نے اپنے ایک قبائلی دشمن کا قتل  کیا تھا۔ اس جرم میں اس کو کالے پانی کی سزا ہوئی جس کو وہ بلا جواز سمجھتا تھا۔ لارڈ میو کے جزائر انڈیمان کے دورے میں شیرِ علی نے ڈرامائی انداز میں چھری کے وار کرکے وائسرائے کو قتل کیا۔ برطانوی راج کا قتل کا یہ انوکھا واقعہ تاجِ برطانیہ کی تاریخ میں ایک المناک باب کے طور پر درج ہے۔

اْنیسویں صدی کے وسط میں انگریز جب برصغیر کے اس علاقے  میں پہنچے  تو اْنہیں احساس ہواکہ شمال مغربی ہندوستان کی ثقافت اور یہاں کے آرٹس اور کرافٹس منفرد نوعیت کے ہیں لہٰذا 1864ئ  میں اْنہوں نے  لاہور میں، جہاں  ٹولنٹن مارکیٹ واقع ہے،  ایک صنعتی نمائش کا اہتمام کیا اور یہی نمائش بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ نمائش کے ایک حصے میں آرٹس اور کرافٹس تھے اور ساتھ  ہنر مند کاریگر بھی تھے لہٰذااس حصے کی لاہور  سکول آف آرٹس کے طور پر تنظیم کردی گئی جبکہ باقی رہ جانے والے نوادرات کو لاہور میوزیم کا نام دے دیا گیا۔  بعد میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر لاہور میں تین نئی عمارتیں بنائی گئیں جن میں لاہور میوزیم کی،لاہور سکول آف آرٹس اور لاہور کارپوریشن کی عمارتیں شامل تھیں۔ اِن 
تینوں عمارتوں کو جوبلی بلڈنگز بھی کہا جاتا ہے۔

 لاہور سکول آف آرٹس کے قیام کو ابھی  چند برس  ہوئے بیتے تھے کہ اس کا نام تبدیل کرکے  میو سکول آف آرٹس رکھ دیا گیا
 تھا۔ اس ادارے کا پرانا نام لوگ بالکل بھول گئے اور پورے ہندوستان میں میو سکول آف آرٹس  نے ایک معروف درسگاہ کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔ 

اس سکول کا قیام برطانوی دور حکومت میں فنون لطیفہ کے فروغ اور تعلیم کے غرض سے رکھ گیا تھا۔ اس سے قبل کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں آرٹس سکولوں کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ سید محمد لطیف کے مطابق اس سکول کو لارڈ میو کی یاد میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبے میں صنعتی فنون کو ترقی دی جائے اور اس کی فراموش کی گئی دستکاریوں اور آرٹس اینڈ کرافٹس کو دوبارہ اجاگر کیا جائے۔ جب 1864ئ میں لاہور میں پنجاب کی مصنوعات ، فنون اور دستکاریوں کے متعلق پہلی نمائش منعقد ہوئی تو پنجاب کے لئے ایک دستکاری سکول کے قیام کے بارے میں زور دیا گیا۔ اس مسٹر بی۔ ایچ بیڈن پاویل نے 1872ئ میں پنجاب کی دستکاریوں کے متعلق شائع کردہ اپنی کتاب میں ملک کے فنون کی ترقی و ترویج کے لئے اس جیسے سکول کے قیام کی اہمیت پر زور دیا۔ مارچ 1872ئ میں منٹمگری ہال میں ایک عوامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لارڈ میو کی یاد کو برقرار رکھنے کے لئے کسی مناسب یادگار کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ ان کے قتل نے پورے ہندوستان میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ اس مقصد کے لئے 68,119 روپے چندے کے طور پر جمع کیا کئے۔ اسی مقام پر 24مارچ کو سینٹرل میو میموریل کمیٹی کے منعقد ہونے والے اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ یادگار کی بہترین شکل کیا ہونی چاہئے؟ سر لیپل فرگن نے انگریزی اور ہندوستانی زبان میں اپنی فصیح و بلیغ تقریر میں تجویز کیا کہ اس رقم کو ایک دستکاری سکول کی عمارت بمعہ ساز و سامان کی تعمیر پر خرچ کیا جائے اور اس ادارے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے حکومت سے امداد کے لئے کہا جائے۔ اس تجویز کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ سر رچرڈ ٹیمپل نے ان اصولوں کے بارے میں ایک طویل یادداشت تحریر کی جن پر سکول کو شروع کیا جانا تھا۔ لہذا وزیر خارجہ نے 24 ستمبر 1874ئ کو اس کی منظوری دے دی۔ 

اس سکول کے پہلے  معروف مصنف رڈیارڈ کپلنگ کے والد پرنسپل لاک وُڈ کپلنگ تھے۔ لاک وُڈ کپلنگ لاہور عجائب گھر کے
 کیوریٹر کے عہدے کے ساتھ  میو سکول آف آرٹس میں اپریل 1887ئ میں پرنسپل تعینات کیا گیا تھا ۔ وہ اس سے قبل ممبئی کے جے جے سکول آف آرٹس کے ساتھ منسلک تھے۔

 انگریز حکومت ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کی خواہش رکھتی تھی جس میں عجائب گھر، لائبریری اور کئی بڑے لیکچر ہال موجود ہوں جہاں فن دستکاری کی تعلیم دی جا سکے۔ اس ضمن میں لاک وڈ کپلنگ کا انتخاب بہترین تھا جن  کا شمار انگریز عہد کے ہندوستانی فنون لطیفہ کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔ انہوں نے عجائب گھر اور سکول کے انتظامات نہایت جدید اور فن کارانہ انداز میں سبھالا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے بیٹے رڈیارڈ کپلنگ کی مدد سے عجائب گھر کی کچھ اس طرح پلاننگ کی کہ اس میں پنجاب کی ثقافت اور آثار قدیمہ دونوں کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دینے لگی۔  ان کے بعد بھائی رام سنگھ میو سکول آف آرٹس کے پرنسپل  مقرر ہوئے۔ بھائی رام سنگھ پہلے مقامی باشندے تھے جنہوں نے اس آرٹس سکول کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔ 

لاہور میں صنعتی سکول کے قیام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب بیسویں صدی کے دہائی کے آغاز میں مانچسٹر سے ہندوستان  آنا شروع ہوا تو  مقامی انڈسٹری کو شدید دھچکہ پہنچا ۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے سامان کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی اور یوں محسوس ہونے لگا کہ جلد ہی دستکاری اور آرٹ کے پیشے سے وابستہ افراد بےکار ہوجائیں گے۔ یہ مجموعی طور ہر دستکاری کے فن کے زوال کا پیش خیمہ تھا۔ اس دوران تقریباً کاٹن کی صنعت سے وابستہ تقریباً چالیس ہزار اور کپڑا بنائی کی صنعت سے وابستہ تقریباً نو سو کاریگر بے روزگار ہو چکے تھے۔ کپڑے کی پرنٹنگ شہر میں ہی جاتی تھے لیکن مانچسٹر سے اعلیٰ مشینوں پر تیار ہونے والا کپڑا مارکیٹ میں آنے سے کپڑے کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ اون اور ریشم کا کاروبار بھی بے حد متاثر ہوا۔ چنانچہ میو سکول آف آرٹس ایسے تمام کاریگروں کے لئے خوشی کا ایک پیغام لے کر آیا جنہیں اپنے کاروبار کی فکر لاحق تھی۔  جلد ہی میو سکول ان صنعتوں سے منسلک افراد کا نمائندہ ادارہ بن گیا۔ اس دور میں تعمیر ہونے والی عمارتوں اور  لکڑی کے ساز و سامان انگریزی ڈیزائن کے مطابق تیار کئے جارہے تھے اور مقامی کاریگر اس صورتحال سے بھی خاصے پریشان تھے۔ ایسے تمام کاریگروں کے لئے میو سکول آف آرٹس نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔  فوٹوگرافی اور پرنٹنگ کے آنے سے لیتھوگرافرز کی مانگ میں اضافہ ہوا تو سکول میں ایک الگ شعبہ قائم 
کر دیا گیا۔ 

 31مارچ 1891ئ کو حاضری کے رجسٹر میں طلبا کی تعداد 117تھی اور حاضری94 تھی۔ اس وقت اس کے مندرجات میں تین اہم شعبے شامل تھے۔ پہلے میں جنرل ڈرائنگ اور آرائشی ڈیزائن تھے۔ طلبا اس جماعت میں اجسام کی ڈرائنگ ، تعمیراتی ڈرائنگ اور فری ہنڈ رنگ آمیزی، لیتھو گرافی کے لئے پین ڈرائنگ ، ماڈلنگ اور ڈھلائی کے بارے میں پڑھتے تھے۔ ان کو سب عملی جیومیٹری اور تاریخ کا کورس لازماً پاس کرنا پڑتا تھا۔ دوسرے میں چوبی کندہ کاری، تعمیراتی ڈرائنگ وغیرہ تھی ۔ اس جماعت میں تمام طلبائ کے لئے چوبی کندہ کاری میں مہارت پیدا کی جاتی ہے اور ان کے وقت کو یکساں طور پر چوبی کندہ کاری عمارتی ڈرائنگ ، ماڈل ڈیزائن اور فری ہینڈ ڈرائنگ میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ تیسرا شعبہ ماڈل بنانے اور پلاسٹر کی ڈھلائی وغیرہ کے لئے تھا۔ 

سید محمد لطیف کے مطابق اس دور میں میو سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی دواقسام تھیں۔ پہلی قسم میں وہ طلبہ آتے تھے جو اہل حرفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو دستکاری کا فن قدرتی طور پر ورثے میں ملا تھا لیکن انہیں ڈرائنگ وغیرہ پڑھنے کا موقع میسر نہیں تھا اور انہوں نے کسی قسم کی عام تعلیم بھی حاصل نہیں کی ۔ دوسری قسم میں وہ طلبائ تھے جنہوں نے عمومی تعلیم تو حاصل کی تھی لیکن انہیں زیادہ تر فنی اور دستکاری کی تعلیم میں اطمینان بخش جوہر دکھانے کا موقع نہ مل سکا تھا ۔ 


 نیشنل کالج آف آرٹس کے کپلنگ بلاک کا سنگ بنیاد 3جنوری 1880ئ کو پرنس البرٹ وکٹر نے رکھا تھا ۔اس عمارت  کو رائے بہادر کنہیا لال ایکزیکٹیو انجینئر لاہور نے سر گنگا رام کی سربراہی میں تعمیر کرایا اور اس کا نقشہ بھی انہوں نے خود تیار کیا تھا۔ یہ 1883ئ میں 43,000 روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔  یہ عمارت مغل فن تعمیر کا ایک جدید نمونہ ہے۔   اسے عام طور پر جدید مغل آرٹ ہا اینگلو مغل آرٹ بھی کہا جاتا ہے۔ آغاز میں اس عمارت کے چھ کمرے تھے ۔ 1881ئ میں اس میں توسیع کی گئی اور پنجابی دستکاریوں کے لئے الگ کمرہ بنایا گیا۔ 1891ئ میں عارضی کمروں کو مضبوط کر دیا گیا جن کا ڈیزائن اس وقت کے پرنسپل کے ترتیب دیا تھا۔ مزید میشنیں اور اوزار لائے گئے۔ 1902ئ میں چار میشن ورک شاپس اور اور فوٹو لیتھو گرافک سٹودیو کام آغاز کر چکا تھا۔ مرکزی دروازے کے سامنے لان اور فوارہ بھائی رام سنگھ نے ڈیرائن کیا۔  نیشنل کالج آف آرٹس کے شعبہ آرکیٹیکچر سے وابستہ استاد سجاد کوثر کو اس حوالے سے کہنا ہے کہ ٴٴ اس کالج کی تعمیر بھی انگریز عہد میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارتوں کی طرز پر گئی تھی۔  کالج کا وہ حصہ کو انگریز عہد میں تعمیر ہوا وہ انگریز فن تعمیر اور مغلیہ فن تعمیر کا امتزاج ہے۔  فوارہ اور کورٹ یارڈ کا لے آئوٹ اس کالج کے ہونہار طالب علم بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کیا۔ وہ ابھی زیر تعلیم ہی تھی کالج کے پرنسپل وڈ لاک کپلنگ نے ان کی یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کی ڈیزائن کردہ اس عمارت میں سادگی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا پہلو میں نمایاں ہے۔ٴٴ 

سید محمد لطیف سکول آف آرٹس کی قدیم عمارت کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں  لکھتے ہیں کہ  اس ادارے کو اس نام سے پکارنے کی ایک اور وجہ  یہ بھی تھی اس پر خرچ ہونے والی رقم کو پنجاب میں میو میموریل کمیٹی کے چندوں سے پورا کیا گیا تھا۔  وہ قدیم عمارت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ عمارت کا مرکزی حصہ دو منزلہ اور باقی حصہ ایک منزلہ ہے۔ نچلی منزل میں ماڈلنگ یا مولڈنگ روم ، ڈرائینگ اینڈ پینٹنگ روم، پرنسپل کے دفتر کا کمرہ ، سٹور روم اور دو غلسخانے ہیں۔ بالایہ منزل پر 63 x 25فٹ کا ایک بہر بڑا ایلیمنٹری اور لیکچر روم ہے۔  اس عمارت کی لمبائی 155فٹ اور درمیاں میں 45فٹ چورائی ہے۔ بچلی منزل کی بلندی 20فٹ ہے اور بالائی منزل کنگرے سوا اٹھائیس فٹ بلند ہے۔ زیریں منزل اعلیٰ معیار کی ٹائلوں سے بنائی گئی ہے۔ اس کو کنکریٹ کی چار انچ موٹی تہہ کے سوپر اٹھایا گیا ہے۔ بالائی منزل میں بھی چوکور شکل کی پختہ ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔ ان کو مسالے سے برگاہوں اور گارڈروں کی پلیٹوں پر ہموار کر کے لگایا گیا ہے۔ ٹائلوں کی درازوں میں چونا بھر دیا گیا ہے۔ ہموار چھت پر چونے کی چار انچ موٹی تہہ بچھا کر اسے خوب کوٹا پیٹا گیا ہے اور اس پر نہایت ملائم پلستر کیا گیاہے۔چپوترہ، چھت کے چہتیروں پر بڑے حجم کی ٹائلوں کو چونے سے لاگر کر بنایا گیا ہے۔ بالائی کمرے کی چھت 18 x 12 x 1/4انچ کی سلوں پر مشتمل ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے اوپر چڑھا کر چھ انچ کی میخیں لگائی گئی ہیں ۔ ان سلوں کو ڈلہوزی کی دوکان سے حاصل کیا گیئا تھا۔ ان کا حجم اور رنگ ایک جیسا ہے۔  بالائی منزل کی بیرونی منڈیر کو دہلی سے حاصل شدہ سنگ سرخ سے بنایا گیا ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں بہت خوبصورت ہیں  جو دو انچ موٹی ہیں۔ فریموں کو دیوار میں آہنی قابلوں اور کیلوں  سے نہایت مضبوطی کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ 

کالج کے سابق مدرس اور نامور مصور ڈاکٹر اعجاز انور کے مطابق  تقسیم ِ ہند اور قیام  قیام پاکستان کے بعد میو سکول آف آرٹس میں محض دس گیارہ طالب علم رہ گئے تھے کیونکہ یہاں اْن کے بقول زیادہ تر غیر مسلم طالب علم تھے۔برطانوی دور میں میو سکول آف آرٹس اور اس کے ساتھ واقع لاہور کے عجائب گھر کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی یعنی آرٹس اسکول میں جو اہم کام ہوتاتھا اس کو فورا ًہی لے جا کر میوزیم میں رکھ دیا جاتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد میوزیم الگ اور آرٹس  سکول الگ ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں آرٹس اینڈ کرافٹس کی کافی زیادہ تربیت خاندانوں تک ہی محدود تھی۔ درسگاہ میں اپنا فن سکھانے سے ماہر کاریگر اکثر گریز کرتے تھے اور چونکہ اس ادارے میں پاکستان بننے سے پہلے کی ماہر کاریگروں کی یہ روایت موجود تھی کہ وہ یہاں آکر طلبہ وطالبات کوفنون سکھاتے تھے لہٰذا وہ روایت آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھاتی رہی اور یوں 1958ئ تک طالب علموں کی تعداد یہاں کافی ہوگئی۔   1958ئ  میں جب میوا سکو ل آف آرٹس کو نیشنل کالج آف آرٹس کا درجہ دیا گیا توپروفیسرسپوننبرگ اس کے پہلے پرنسپل بنے۔ پروفیسرسپوننبرگ کی کنٹریکٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد 1960ئ کی دہائی کے ابتدائی برسوں شاکر علی  نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بنے تھے۔

اس وقت تک اس کو دستکاری اور صنعت و حرفت کے سکول کا درجہ حاصل تھا جہاں لکڑی کا کام ، لوہے اور جیولری کا کام، برتن سازی، سول انجنیئرنگ اور کمرشل آرٹ کی نوعیت کے کام ہوتے تھے۔ اسی دوران یہاں فائن آرٹس، ڈیزائن اور آرکیٹیکچر کا شعبہ قائم کیا گیا۔  کالج کو نئی شناخت ملنے سے فائن آرٹس کے شعبہ پر خاص طور پر توجہ دی تھی۔ اس شعبہ میں روایتی مصوری، جدید مصوری، گرافک آرٹس اور مجسمہ سازی کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ 

قیام پاکستان کے بعد عرصہ دراز تک اس کالج کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔  حکومت کی دلچسپی اس دور تک بھی بالکل برائے نام تھی جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ حکومت  نے اس آرٹس سکول کو وزارتِ زراعت کے تحت رکھا ہوا تھا۔ تاہم  صورتحال کچھ بہتر ہوئی تو اس ادار ے کو وزارتِ صنعت کے سپر د کردیا گیا۔  یہی وہ دور تھا جب پروفیسر شاکر علی جیسے اساتذہ نے پہلے سے موجود اس تجویز پر کام کرنا شروع کیا کہ میو سکول آف آرٹس کو قومی سطح کے نیشنل کالج آف آرٹس میں تبدیل کیا جائے۔ 1963ئ میں اس کو محکمہ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔ 

این سی اے کا پہلا سیشن بہت معروف ہے۔ اس سیشن میں جو طالب علم آئے بعد میں ان میں سے بیشتر مختلف شعبوں میں بہت معروف ہوئے۔ اس میں ظہورالاخلاق بھی شامل تھے جو بعد میں اسی کالج میں پروفیسر ہوئے۔ پروفیسر صلاح الدین بھی اسی بیچ میں تھے جنہوں نے سرامکس میں قابل قدر کام کیا ہے، عبدالرحمن خان بھی تھے جن کا آرکٹیکچر میں بڑا نام ہے اور ڈیزائن کے شعبے کی اہم شخصیت احمد خان بھی اسی بیچ میں تھے۔ علاوہ ازیں  اس کالج کے ساتھ بے شمار نامور فنکار  وابستہ رہے جن میں معروف مصور ملک غلام نبی ، مصور اور مجسمہ ساز پی سی سانیال کے علاوہ عبدالرحمن چغتائی شامل ہیں۔اس کے علاوہ نیر علی دادا، ناصرہ قمر، آصف آر۔ نقوی، شہرزاد عالم، صلاح الدین میاں، بشیر مرزا، کمیل نقاش، کولن ڈیوڈ، سعید اختر، لالہ رُخ،  حسنات محمود اور سلیمہ ہاشمی جیسے قابل قدر فنکار بھی اس ادارے سے منسلک رہے۔ علاوہ ازیں  اس 
ادارے کے سینکڑوں طلبہ وطالبات کے فن کی ہر سال کئی ملکوں میں نمائشیں ہوتی رہتی  ہیں۔


ملک کے بہترین آرٹ کالج ہونے کے باعث اس میں داخلے کے خواہش مند طلبا و طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور نئے شعبہ جات کا بھی آغاز عمل میں آیا۔ جس کے لئے نئے بلاک کی تعمیر ہوئی۔ اس ضمن میں کالج کے سابق طالب علم اور معروف آکیٹیکٹ نیر علی دادا نے اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے کالج کے نئے بلاکس کی تعمیر میں سادگی اور حُسن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا۔ اس وقت این سی میں آٹھ شعبہ جات قائم ہیں جن میں فائن آرٹس، کمیونیکیشن ڈیزائن، سرامکس ڈیزائن ، پراڈکٹ ڈیزائن، ٹیکسٹائل ڈیزائن، آرکیٹیکچر، موسیقی اور فلم اینڈ ٹی وی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں  وږیول آرٹس، انٹیریئر ڈیزائن اور ملٹی میڈیا میں ماسٹرز کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جبکہ کمیونیکیش اینڈ کلچرل سٹڈیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اجرائ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی فن و لطیفہ سے متعلق کئی شارٹ کورسز اور ورک شاپس بھی کروائے جاتے ہیں۔ 

کالج کی قدیم عمارت  اینگلو مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار ہے۔  ظہور الاخلاق گیلری، پرنٹنگ سٹوڈیو، ورکشاپس اور آرکیٹیکچر بلاک قابل دید ہیں۔ جبکہ نئے تعمیر کئے گئے بلاکس بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ انگریز فن تعمیر اور نیر علی دادا کی ڈیزائن کردہ عمارتیں کالج میں مجموعی طور پر ایک دلکش ماحول پیدا کرتی ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کی عمارت جدید اور قدیم فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ 







Monday, May 16, 2011

Lahore: National College of Arts






On the famous The Mall of Lahore, Opposite (south) of Kim's Gun and framed by the foliage of enormous trees is one of the most important institutions that the Punjab has to offer—the National College of Arts or NCA, rated by some as the finest art institution in Pakistan.

The art school was named Mayo School of Industrial Art, since the cost of its construction was met by subscriptions to the Mayo Memorial in memory of Viceroy Lord Mayo (1869-72), who was stabbed to death by a prisoner in the Andaman Islands.

The school was established as part of the policy of the Government to promote education in arts and crafts in the subcontinent, the first art schools having been established in the presidency capitals of Calcutta, Madras and Bombay. Lockwood Kipling, father of the famous author Rudyard, had taught architectural sculpture at Bombay School of Art for ten years before arriving as principal of the Lahore School in April 1875. Kipling, considered the father of Indian arts and crafts, was followed by Bhai Ram Singh, another eminent personality.

The flooding of the Punjab market with British manufactures from Manchester drove the local industry out of business by the turn of the century. Popular taste was weaned from its cultural roots, which resulted directly in the decline of art and craft. Nearly 40,000 cotton workers and 900 weavers in Lahore were rendered jobless. Cotton printing being done in the city and once prized in such far-off places as Switzerland and Holland, was badly hit by the shoddy machine-made variants that came in from Manchester. Cottage industry in woolen and silk doth was virtually wiped out. The Mayo School became a haven for representative professionals from all the industries thus affected. European designs in building and furniture and the rise of the furniture firms brought bad times for the Punjabi carpenter reputed one of the cleverest in the world. The vogue received by photography and printing produced a great demand for lithographers and the school set up a process department for the production of line, half tone and color blocks for illustrating purposes.

The original courses followed the general art curriculum of European art schools with the inclusion of examples of oriental architecture, and 'principles of the Indian design'. Within a decade the school earned a well-deserved reputation for the promotion and training of local craft persons. In the Gazetteer of 1884 Kipling noted, "The Mayo School has had a decided influence on the carpentry as well as on other branches of manufacture, such as cotton prints, metal work etc. This is partly due to objects actually made in the school, to designs and suggestions given to bazaar craftsmen, and to its connection with exhibitions held in Paris, Melbourne, Lahore and Calcutta, for which it has acted as an agent. Its aim is to recur as much as possible to the best types of indigenous design, and to make more widely known the actual state and capabilities of the arts of the province."

The foundation stone of the Kipling Block (now the administration block) was laid on January 3,1880 by Prince Albert Victor, and presents an early example of the utilization of Mughal imagery. Referred to as 'late Mughal' style in contemporary accounts, its construction was supervised by a famous engineer of Lahore, Khan Bahadur Ganga Ram, who later became well known for his philanthropy. Initially, the building consisted of six rooms. Temporary additions were made to it in 1881 to house an exhibition of the Punjab Crafts. In 1891, these temporary structures were made permanent in accordance with a design prepared by the Principal. Now the school had proper workshops equipped with tools and machines. In 1902 four large machine workshops and photolithographic studio were already functioning. The fountain in the front of the main entrance was designed by Sirdar Bahadur Bhai Ram Singh, much admired as a designer and craftsman when selected to decorate a section of Queen Victoria's Osborne House. Kipling utilized his crafts and sculpture background to construct a comparatively simple but elegantly detailed structure. The beautifully laid brick masonry of the walls is terminated at the roof with an outer cornice of red sand- stone, which, historian Latif informs, had been obtained from Delhi.

By 1911, nearly a lakh of rupees worth of machinery and tools were being operated in the school for such diverse crafts as jewellery, cotton-printing, book-binding, cabinet making, light-metal work, carpentry and blacksmithy. By 1915, the work done at the school was recognized all over India and also in England. The principal works executed by its craftsmen were thus located: Wood-carving, plaster-work and interior in Barnes Court, Simla; Government House, Lahore; Circuit House, designs for amphitheatre at the Delhi Durbar; execution of decorative work including carpets and shamianas of gold thread and repusse metal work and designs for the Law and Oriental Colleges, Lahore; design and decorative work in plaster for the new Railway Theatre, Lahore; a carved console table for Government House, Lahore; Punjab carving for the Billiard Room of Bagshot Park, England for the Duke of Connaught; an eight canon stall for the Lefroy Memorial in Lahore Cantonment’s Church.

If you wish to experience a magical world, you will need to enter the lofty aiwan-like Mughal portal of the college. Worth the experience are the administration block, Zahoorul Akhlaq Gallery, (named after one of the most brilliant sons of the college), the printmaking studio, workshops and the architectural block. Some of the early works of architect Nayyar Ali Dada, another famous alumnus of the college, are also located in the campus and are worth visiting
Kim's Gun

The interlinked spaces of the college create a world of their own, a world of charm and creativity, as if Kipling had achieved his goal of insulating the creative urges of the future artists from the harsh reality of the outer world. The ambiance of the internal courts with their red brick arched facades transports you to a bygone era, hard to replicate anywhere else.

Text: ualbterta
Photos: Shiraz Hassan


Saturday, May 14, 2011

Lahore's Heritage: Punjab University [Old Campus]








Another one of the fine educational institutions that Lahore seems to abound in is the old campus of Punjab University, located opposite to the Lahore Museum building across the Upper Mall Road.

Lahore Government College, established in 1863, was followed by several other educational institutions of higher learning such as Oriental College (1865) and Forman Christian College in 1866. However, they were all affiliated with Calcutta University. Historian Latif credits the efforts of people of the province in the creation of Punjab University, which was the "result of their desire for a living and growing system of education, in the control and direction of which they may have a share and which will blend with the ancient learning of the country, and make use of its classical and vernacular languages as the media of instruction."

The University began its life as "the Lahore University College" and in 1869 came to be called "the Punjab University College." The University was formally constituted on 14 October 1882, and Charles Aitchison, Lieut. Governor of the Punjab, appointed the first chancellor of the university. Contrary to the three previously established universities, which were only examining institutions, the University of the Punjab was both teaching as well as examining body right from the beginning. By 1910, 10 colleges had become affiliated to the university, many of which were located in its close vicinity. The contribution of Dr. G. W. Leitner, an enlightened Hungarian and a naturalized Britisher, was instrumental in the establishment of this University and became its first Registrar.

To view the Anglo-Mughal style Punjab University Hall, designed by Bhai Ram Singh, you will need to enter the gate which is directly opposite Lahore Museum. Although not as majestic as Kipling's Anglo-Mughal museum, Punjab University Hall is nevertheless an impressive structure. Belonging to late-Anglo-Mughal style—its foundation stone was laid in 1905—the building boasts lancet arches and a profusion of cupolas in varying sizes. The two-storey building, now housing the university's fine arts department, is designed in the manner of Raj buildings, incorporating a deep arcaded verandah front. A heavy-set clock tower, placed above the projecting porch or deorhi, dominates the centre as it rises well above the main structure and corner towers.


The square portion of the tower displays large clocks on its four sides, while its last stage is composed of an octagonal clifton'-like structure capped by a dome terminated with a finial. The emphasis on the outer extremities of the building is provided by corner towers, which carry similar domes. Each bay of the verandah is also defined by decorative columns terminating above the parapet in the form of towers capped by small cupolas. Its reddish-pink hue, though not as mellow as the buildings across the road, blends well with the surrounding environment. Another building, of later vintage but of similar Anglo-Mughal characteristics, now houses the pharmacy department.

Placed between the two imposing structures, but slightly set back is a small, two-storey structure built as the Punjab University Union Society, begun in 1933 to mark the jubilee celebrations of the university. The building is now known as Woolner Hall, named after a dedicated teacher of the university, who rose from the position of registrar to being its vice-chancellor. This is the same Alfred C. Woolner, whose enormous bronze statue on a granite base adorns the pavement outside the university campus.


Due to the pressure of the rising number of students and affiliated colleges, during the 1960s the university, except for a handful of departments, was shifted to a new campus, spread over 10 square miles, on a picturesque canal bank site south of the city.

Text: ualberta.ca
Photos: Shiraz Hassan