فنون لطیفہ کا مسکن .... نیشنل کالج آف آرٹس
برصغیر کے تاریخی تعلیمی ادارے کے حوالے سے رپورٹ
لاہور کی مال روڈ پر زمزمہ توپ کے سامنے درختوں کی اوٹ میں چھپی ہوئی سرخ اینٹوں سے ایستادہ نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس مال روڈ پر لاہور عجائب گھر اور ٹائون ہال کے درمیان انارکلی کے پاس واقع ہے۔ اس کو جدید مغلیہ طرز پر تعمیر کیا گیا اور اس میں انگریز فن تعمیر کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس کا شمار خطے کے بہترین آرٹس کالجوں میں کیا جاتا ہے۔ اپنے قابل قدر طلبا، اساتذہ اور شاندار فن تعمیر کے باعث اس کالج کو برصغیر
کے دیگر تعلمی اداروں میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
نیشنل کالج آف آرٹس کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں لاہور سکول آرٹس کے نام سے رکھی گئی ۔ بعدازاں وائسرائے ہند لارڈ میو کو خراج تحسین دینے کے غرض سے اس کا نام میو سکول آرٹس رکھ دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی عرصہ دراز تک اسے میو سکول آف آرٹس کے نام سے پکارا جاتا رہا ۔ 1958ئ میں میوسکول آف آرٹس کو تبدیل کرکے نیشنل کالج آف آرٹس کا درجہ دے دیا گیا۔
وائسرائے ہند لارڈ میو کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان شیرِعلی نے1872ئ میں جزائر انڈیمان کے اْن کے سرکاری دورے کے دوران قتل کردیا تھا۔ شیر علی پنجاب پولیس کا ملازم تھا اور اس نے اپنے ایک قبائلی دشمن کا قتل کیا تھا۔ اس جرم میں اس کو کالے پانی کی سزا ہوئی جس کو وہ بلا جواز سمجھتا تھا۔ لارڈ میو کے جزائر انڈیمان کے دورے میں شیرِ علی نے ڈرامائی انداز میں چھری کے وار کرکے وائسرائے کو قتل کیا۔ برطانوی راج کا قتل کا یہ انوکھا واقعہ تاجِ برطانیہ کی تاریخ میں ایک المناک باب کے طور پر درج ہے۔
اْنیسویں صدی کے وسط میں انگریز جب برصغیر کے اس علاقے میں پہنچے تو اْنہیں احساس ہواکہ شمال مغربی ہندوستان کی ثقافت اور یہاں کے آرٹس اور کرافٹس منفرد نوعیت کے ہیں لہٰذا 1864ئ میں اْنہوں نے لاہور میں، جہاں ٹولنٹن مارکیٹ واقع ہے، ایک صنعتی نمائش کا اہتمام کیا اور یہی نمائش بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ نمائش کے ایک حصے میں آرٹس اور کرافٹس تھے اور ساتھ ہنر مند کاریگر بھی تھے لہٰذااس حصے کی لاہور سکول آف آرٹس کے طور پر تنظیم کردی گئی جبکہ باقی رہ جانے والے نوادرات کو لاہور میوزیم کا نام دے دیا گیا۔ بعد میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر لاہور میں تین نئی عمارتیں بنائی گئیں جن میں لاہور میوزیم کی،لاہور سکول آف آرٹس اور لاہور کارپوریشن کی عمارتیں شامل تھیں۔ اِن
تینوں عمارتوں کو جوبلی بلڈنگز بھی کہا جاتا ہے۔
لاہور سکول آف آرٹس کے قیام کو ابھی چند برس ہوئے بیتے تھے کہ اس کا نام تبدیل کرکے میو سکول آف آرٹس رکھ دیا گیا
تھا۔ اس ادارے کا پرانا نام لوگ بالکل بھول گئے اور پورے ہندوستان میں میو سکول آف آرٹس نے ایک معروف درسگاہ کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔
اس سکول کا قیام برطانوی دور حکومت میں فنون لطیفہ کے فروغ اور تعلیم کے غرض سے رکھ گیا تھا۔ اس سے قبل کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں آرٹس سکولوں کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ سید محمد لطیف کے مطابق اس سکول کو لارڈ میو کی یاد میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبے میں صنعتی فنون کو ترقی دی جائے اور اس کی فراموش کی گئی دستکاریوں اور آرٹس اینڈ کرافٹس کو دوبارہ اجاگر کیا جائے۔ جب 1864ئ میں لاہور میں پنجاب کی مصنوعات ، فنون اور دستکاریوں کے متعلق پہلی نمائش منعقد ہوئی تو پنجاب کے لئے ایک دستکاری سکول کے قیام کے بارے میں زور دیا گیا۔ اس مسٹر بی۔ ایچ بیڈن پاویل نے 1872ئ میں پنجاب کی دستکاریوں کے متعلق شائع کردہ اپنی کتاب میں ملک کے فنون کی ترقی و ترویج کے لئے اس جیسے سکول کے قیام کی اہمیت پر زور دیا۔ مارچ 1872ئ میں منٹمگری ہال میں ایک عوامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لارڈ میو کی یاد کو برقرار رکھنے کے لئے کسی مناسب یادگار کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ ان کے قتل نے پورے ہندوستان میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ اس مقصد کے لئے 68,119 روپے چندے کے طور پر جمع کیا کئے۔ اسی مقام پر 24مارچ کو سینٹرل میو میموریل کمیٹی کے منعقد ہونے والے اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ یادگار کی بہترین شکل کیا ہونی چاہئے؟ سر لیپل فرگن نے انگریزی اور ہندوستانی زبان میں اپنی فصیح و بلیغ تقریر میں تجویز کیا کہ اس رقم کو ایک دستکاری سکول کی عمارت بمعہ ساز و سامان کی تعمیر پر خرچ کیا جائے اور اس ادارے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے حکومت سے امداد کے لئے کہا جائے۔ اس تجویز کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ سر رچرڈ ٹیمپل نے ان اصولوں کے بارے میں ایک طویل یادداشت تحریر کی جن پر سکول کو شروع کیا جانا تھا۔ لہذا وزیر خارجہ نے 24 ستمبر 1874ئ کو اس کی منظوری دے دی۔
اس سکول کے پہلے معروف مصنف رڈیارڈ کپلنگ کے والد پرنسپل لاک وُڈ کپلنگ تھے۔ لاک وُڈ کپلنگ لاہور عجائب گھر کے
کیوریٹر کے عہدے کے ساتھ میو سکول آف آرٹس میں اپریل 1887ئ میں پرنسپل تعینات کیا گیا تھا ۔ وہ اس سے قبل ممبئی کے جے جے سکول آف آرٹس کے ساتھ منسلک تھے۔
انگریز حکومت ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کی خواہش رکھتی تھی جس میں عجائب گھر، لائبریری اور کئی بڑے لیکچر ہال موجود ہوں جہاں فن دستکاری کی تعلیم دی جا سکے۔ اس ضمن میں لاک وڈ کپلنگ کا انتخاب بہترین تھا جن کا شمار انگریز عہد کے ہندوستانی فنون لطیفہ کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔ انہوں نے عجائب گھر اور سکول کے انتظامات نہایت جدید اور فن کارانہ انداز میں سبھالا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے بیٹے رڈیارڈ کپلنگ کی مدد سے عجائب گھر کی کچھ اس طرح پلاننگ کی کہ اس میں پنجاب کی ثقافت اور آثار قدیمہ دونوں کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دینے لگی۔ ان کے بعد بھائی رام سنگھ میو سکول آف آرٹس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بھائی رام سنگھ پہلے مقامی باشندے تھے جنہوں نے اس آرٹس سکول کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔
لاہور میں صنعتی سکول کے قیام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب بیسویں صدی کے دہائی کے آغاز میں مانچسٹر سے ہندوستان آنا شروع ہوا تو مقامی انڈسٹری کو شدید دھچکہ پہنچا ۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے سامان کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی اور یوں محسوس ہونے لگا کہ جلد ہی دستکاری اور آرٹ کے پیشے سے وابستہ افراد بےکار ہوجائیں گے۔ یہ مجموعی طور ہر دستکاری کے فن کے زوال کا پیش خیمہ تھا۔ اس دوران تقریباً کاٹن کی صنعت سے وابستہ تقریباً چالیس ہزار اور کپڑا بنائی کی صنعت سے وابستہ تقریباً نو سو کاریگر بے روزگار ہو چکے تھے۔ کپڑے کی پرنٹنگ شہر میں ہی جاتی تھے لیکن مانچسٹر سے اعلیٰ مشینوں پر تیار ہونے والا کپڑا مارکیٹ میں آنے سے کپڑے کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ اون اور ریشم کا کاروبار بھی بے حد متاثر ہوا۔ چنانچہ میو سکول آف آرٹس ایسے تمام کاریگروں کے لئے خوشی کا ایک پیغام لے کر آیا جنہیں اپنے کاروبار کی فکر لاحق تھی۔ جلد ہی میو سکول ان صنعتوں سے منسلک افراد کا نمائندہ ادارہ بن گیا۔ اس دور میں تعمیر ہونے والی عمارتوں اور لکڑی کے ساز و سامان انگریزی ڈیزائن کے مطابق تیار کئے جارہے تھے اور مقامی کاریگر اس صورتحال سے بھی خاصے پریشان تھے۔ ایسے تمام کاریگروں کے لئے میو سکول آف آرٹس نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ فوٹوگرافی اور پرنٹنگ کے آنے سے لیتھوگرافرز کی مانگ میں اضافہ ہوا تو سکول میں ایک الگ شعبہ قائم
کر دیا گیا۔
31مارچ 1891ئ کو حاضری کے رجسٹر میں طلبا کی تعداد 117تھی اور حاضری94 تھی۔ اس وقت اس کے مندرجات میں تین اہم شعبے شامل تھے۔ پہلے میں جنرل ڈرائنگ اور آرائشی ڈیزائن تھے۔ طلبا اس جماعت میں اجسام کی ڈرائنگ ، تعمیراتی ڈرائنگ اور فری ہنڈ رنگ آمیزی، لیتھو گرافی کے لئے پین ڈرائنگ ، ماڈلنگ اور ڈھلائی کے بارے میں پڑھتے تھے۔ ان کو سب عملی جیومیٹری اور تاریخ کا کورس لازماً پاس کرنا پڑتا تھا۔ دوسرے میں چوبی کندہ کاری، تعمیراتی ڈرائنگ وغیرہ تھی ۔ اس جماعت میں تمام طلبائ کے لئے چوبی کندہ کاری میں مہارت پیدا کی جاتی ہے اور ان کے وقت کو یکساں طور پر چوبی کندہ کاری عمارتی ڈرائنگ ، ماڈل ڈیزائن اور فری ہینڈ ڈرائنگ میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ تیسرا شعبہ ماڈل بنانے اور پلاسٹر کی ڈھلائی وغیرہ کے لئے تھا۔
سید محمد لطیف کے مطابق اس دور میں میو سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی دواقسام تھیں۔ پہلی قسم میں وہ طلبہ آتے تھے جو اہل حرفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو دستکاری کا فن قدرتی طور پر ورثے میں ملا تھا لیکن انہیں ڈرائنگ وغیرہ پڑھنے کا موقع میسر نہیں تھا اور انہوں نے کسی قسم کی عام تعلیم بھی حاصل نہیں کی ۔ دوسری قسم میں وہ طلبائ تھے جنہوں نے عمومی تعلیم تو حاصل کی تھی لیکن انہیں زیادہ تر فنی اور دستکاری کی تعلیم میں اطمینان بخش جوہر دکھانے کا موقع نہ مل سکا تھا ۔
نیشنل کالج آف آرٹس کے کپلنگ بلاک کا سنگ بنیاد 3جنوری 1880ئ کو پرنس البرٹ وکٹر نے رکھا تھا ۔اس عمارت کو رائے بہادر کنہیا لال ایکزیکٹیو انجینئر لاہور نے سر گنگا رام کی سربراہی میں تعمیر کرایا اور اس کا نقشہ بھی انہوں نے خود تیار کیا تھا۔ یہ 1883ئ میں 43,000 روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی۔ یہ عمارت مغل فن تعمیر کا ایک جدید نمونہ ہے۔ اسے عام طور پر جدید مغل آرٹ ہا اینگلو مغل آرٹ بھی کہا جاتا ہے۔ آغاز میں اس عمارت کے چھ کمرے تھے ۔ 1881ئ میں اس میں توسیع کی گئی اور پنجابی دستکاریوں کے لئے الگ کمرہ بنایا گیا۔ 1891ئ میں عارضی کمروں کو مضبوط کر دیا گیا جن کا ڈیزائن اس وقت کے پرنسپل کے ترتیب دیا تھا۔ مزید میشنیں اور اوزار لائے گئے۔ 1902ئ میں چار میشن ورک شاپس اور اور فوٹو لیتھو گرافک سٹودیو کام آغاز کر چکا تھا۔ مرکزی دروازے کے سامنے لان اور فوارہ بھائی رام سنگھ نے ڈیرائن کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے شعبہ آرکیٹیکچر سے وابستہ استاد سجاد کوثر کو اس حوالے سے کہنا ہے کہ ٴٴ اس کالج کی تعمیر بھی انگریز عہد میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارتوں کی طرز پر گئی تھی۔ کالج کا وہ حصہ کو انگریز عہد میں تعمیر ہوا وہ انگریز فن تعمیر اور مغلیہ فن تعمیر کا امتزاج ہے۔ فوارہ اور کورٹ یارڈ کا لے آئوٹ اس کالج کے ہونہار طالب علم بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کیا۔ وہ ابھی زیر تعلیم ہی تھی کالج کے پرنسپل وڈ لاک کپلنگ نے ان کی یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کی ڈیزائن کردہ اس عمارت میں سادگی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا پہلو میں نمایاں ہے۔ٴٴ
سید محمد لطیف سکول آف آرٹس کی قدیم عمارت کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں لکھتے ہیں کہ اس ادارے کو اس نام سے پکارنے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اس پر خرچ ہونے والی رقم کو پنجاب میں میو میموریل کمیٹی کے چندوں سے پورا کیا گیا تھا۔ وہ قدیم عمارت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ عمارت کا مرکزی حصہ دو منزلہ اور باقی حصہ ایک منزلہ ہے۔ نچلی منزل میں ماڈلنگ یا مولڈنگ روم ، ڈرائینگ اینڈ پینٹنگ روم، پرنسپل کے دفتر کا کمرہ ، سٹور روم اور دو غلسخانے ہیں۔ بالایہ منزل پر 63 x 25فٹ کا ایک بہر بڑا ایلیمنٹری اور لیکچر روم ہے۔ اس عمارت کی لمبائی 155فٹ اور درمیاں میں 45فٹ چورائی ہے۔ بچلی منزل کی بلندی 20فٹ ہے اور بالائی منزل کنگرے سوا اٹھائیس فٹ بلند ہے۔ زیریں منزل اعلیٰ معیار کی ٹائلوں سے بنائی گئی ہے۔ اس کو کنکریٹ کی چار انچ موٹی تہہ کے سوپر اٹھایا گیا ہے۔ بالائی منزل میں بھی چوکور شکل کی پختہ ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔ ان کو مسالے سے برگاہوں اور گارڈروں کی پلیٹوں پر ہموار کر کے لگایا گیا ہے۔ ٹائلوں کی درازوں میں چونا بھر دیا گیا ہے۔ ہموار چھت پر چونے کی چار انچ موٹی تہہ بچھا کر اسے خوب کوٹا پیٹا گیا ہے اور اس پر نہایت ملائم پلستر کیا گیاہے۔چپوترہ، چھت کے چہتیروں پر بڑے حجم کی ٹائلوں کو چونے سے لاگر کر بنایا گیا ہے۔ بالائی کمرے کی چھت 18 x 12 x 1/4انچ کی سلوں پر مشتمل ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے اوپر چڑھا کر چھ انچ کی میخیں لگائی گئی ہیں ۔ ان سلوں کو ڈلہوزی کی دوکان سے حاصل کیا گیئا تھا۔ ان کا حجم اور رنگ ایک جیسا ہے۔ بالائی منزل کی بیرونی منڈیر کو دہلی سے حاصل شدہ سنگ سرخ سے بنایا گیا ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں بہت خوبصورت ہیں جو دو انچ موٹی ہیں۔ فریموں کو دیوار میں آہنی قابلوں اور کیلوں سے نہایت مضبوطی کے ساتھ لگایا گیا ہے۔
کالج کے سابق مدرس اور نامور مصور ڈاکٹر اعجاز انور کے مطابق تقسیم ِ ہند اور قیام قیام پاکستان کے بعد میو سکول آف آرٹس میں محض دس گیارہ طالب علم رہ گئے تھے کیونکہ یہاں اْن کے بقول زیادہ تر غیر مسلم طالب علم تھے۔برطانوی دور میں میو سکول آف آرٹس اور اس کے ساتھ واقع لاہور کے عجائب گھر کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی یعنی آرٹس اسکول میں جو اہم کام ہوتاتھا اس کو فورا ًہی لے جا کر میوزیم میں رکھ دیا جاتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد میوزیم الگ اور آرٹس سکول الگ ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں آرٹس اینڈ کرافٹس کی کافی زیادہ تربیت خاندانوں تک ہی محدود تھی۔ درسگاہ میں اپنا فن سکھانے سے ماہر کاریگر اکثر گریز کرتے تھے اور چونکہ اس ادارے میں پاکستان بننے سے پہلے کی ماہر کاریگروں کی یہ روایت موجود تھی کہ وہ یہاں آکر طلبہ وطالبات کوفنون سکھاتے تھے لہٰذا وہ روایت آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھاتی رہی اور یوں 1958ئ تک طالب علموں کی تعداد یہاں کافی ہوگئی۔ 1958ئ میں جب میوا سکو ل آف آرٹس کو نیشنل کالج آف آرٹس کا درجہ دیا گیا توپروفیسرسپوننبرگ اس کے پہلے پرنسپل بنے۔ پروفیسرسپوننبرگ کی کنٹریکٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد 1960ئ کی دہائی کے ابتدائی برسوں شاکر علی نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بنے تھے۔
اس وقت تک اس کو دستکاری اور صنعت و حرفت کے سکول کا درجہ حاصل تھا جہاں لکڑی کا کام ، لوہے اور جیولری کا کام، برتن سازی، سول انجنیئرنگ اور کمرشل آرٹ کی نوعیت کے کام ہوتے تھے۔ اسی دوران یہاں فائن آرٹس، ڈیزائن اور آرکیٹیکچر کا شعبہ قائم کیا گیا۔ کالج کو نئی شناخت ملنے سے فائن آرٹس کے شعبہ پر خاص طور پر توجہ دی تھی۔ اس شعبہ میں روایتی مصوری، جدید مصوری، گرافک آرٹس اور مجسمہ سازی کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد عرصہ دراز تک اس کالج کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ حکومت کی دلچسپی اس دور تک بھی بالکل برائے نام تھی جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ حکومت نے اس آرٹس سکول کو وزارتِ زراعت کے تحت رکھا ہوا تھا۔ تاہم صورتحال کچھ بہتر ہوئی تو اس ادار ے کو وزارتِ صنعت کے سپر د کردیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب پروفیسر شاکر علی جیسے اساتذہ نے پہلے سے موجود اس تجویز پر کام کرنا شروع کیا کہ میو سکول آف آرٹس کو قومی سطح کے نیشنل کالج آف آرٹس میں تبدیل کیا جائے۔ 1963ئ میں اس کو محکمہ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔
این سی اے کا پہلا سیشن بہت معروف ہے۔ اس سیشن میں جو طالب علم آئے بعد میں ان میں سے بیشتر مختلف شعبوں میں بہت معروف ہوئے۔ اس میں ظہورالاخلاق بھی شامل تھے جو بعد میں اسی کالج میں پروفیسر ہوئے۔ پروفیسر صلاح الدین بھی اسی بیچ میں تھے جنہوں نے سرامکس میں قابل قدر کام کیا ہے، عبدالرحمن خان بھی تھے جن کا آرکٹیکچر میں بڑا نام ہے اور ڈیزائن کے شعبے کی اہم شخصیت احمد خان بھی اسی بیچ میں تھے۔ علاوہ ازیں اس کالج کے ساتھ بے شمار نامور فنکار وابستہ رہے جن میں معروف مصور ملک غلام نبی ، مصور اور مجسمہ ساز پی سی سانیال کے علاوہ عبدالرحمن چغتائی شامل ہیں۔اس کے علاوہ نیر علی دادا، ناصرہ قمر، آصف آر۔ نقوی، شہرزاد عالم، صلاح الدین میاں، بشیر مرزا، کمیل نقاش، کولن ڈیوڈ، سعید اختر، لالہ رُخ، حسنات محمود اور سلیمہ ہاشمی جیسے قابل قدر فنکار بھی اس ادارے سے منسلک رہے۔ علاوہ ازیں اس
ادارے کے سینکڑوں طلبہ وطالبات کے فن کی ہر سال کئی ملکوں میں نمائشیں ہوتی رہتی ہیں۔
ملک کے بہترین آرٹ کالج ہونے کے باعث اس میں داخلے کے خواہش مند طلبا و طالبات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور نئے شعبہ جات کا بھی آغاز عمل میں آیا۔ جس کے لئے نئے بلاک کی تعمیر ہوئی۔ اس ضمن میں کالج کے سابق طالب علم اور معروف آکیٹیکٹ نیر علی دادا نے اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے کالج کے نئے بلاکس کی تعمیر میں سادگی اور حُسن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا۔ اس وقت این سی میں آٹھ شعبہ جات قائم ہیں جن میں فائن آرٹس، کمیونیکیشن ڈیزائن، سرامکس ڈیزائن ، پراڈکٹ ڈیزائن، ٹیکسٹائل ڈیزائن، آرکیٹیکچر، موسیقی اور فلم اینڈ ٹی وی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وږیول آرٹس، انٹیریئر ڈیزائن اور ملٹی میڈیا میں ماسٹرز کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جبکہ کمیونیکیش اینڈ کلچرل سٹڈیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اجرائ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی فن و لطیفہ سے متعلق کئی شارٹ کورسز اور ورک شاپس بھی کروائے جاتے ہیں۔
کالج کی قدیم عمارت اینگلو مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ ظہور الاخلاق گیلری، پرنٹنگ سٹوڈیو، ورکشاپس اور آرکیٹیکچر بلاک قابل دید ہیں۔ جبکہ نئے تعمیر کئے گئے بلاکس بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ انگریز فن تعمیر اور نیر علی دادا کی ڈیزائن کردہ عمارتیں کالج میں مجموعی طور پر ایک دلکش ماحول پیدا کرتی ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کی عمارت جدید اور قدیم فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔
No comments:
Post a Comment