Saturday, May 28, 2011

علم و دانش کا گہوارہ .... جامعہ پنجاب




علم و دانش کا گہوارہ .... جامعہ پنجاب
انگریزعہد میں قائم کی گئی قدیم یونیورسٹی کے بارے میں رپورٹ


لاہور میں انگریز عہد میں بے شمار شاندار عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ سرخ اینٹوں سے مزین یہ شاندار عمارتوں میں سرکاری اور عبادت گاہیں شامل ہیں۔ گوتھک اور اینگلو مغل فن تعمیر کی عکاس ان عمارتوں نے لاہور کو ایک جدید شہر بنادیا تھا۔ انگریز عہد میں تعمیر ہونے والی ان خوبصورت عمارتوں میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی قدیم عمارت بھی شامل ہے۔ جو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت جانے بعد آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم دائم ہے۔

انارکلی کے قریب مال روڈ پر واقع جامعہ پنجاب کی قدیم عمارت انگریز عہد کا شاہکار ہے۔ جامعہ پنجاب پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے اور برصغیر میں مسلم اکثریتی علاقے میں قائم ہونے والی پہلی جامعہ ہے۔ اس دانش گاہ کا قیام 1882ءمیں عمل میں 
آیا ۔

ساٹھ کی دہائی میں طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور یونیورسٹی کو وسعت دینے کے غرض سے شہر سے باہر جامعہ پنجاب کا نیا کیمپس تعمیر کیا گیا اور جامعہ کے بہت سے شعبے نیو کیمپس میں منتقل کر دیئے گئے ۔ اب نیو کیمپس کے اردگرد لاہور کے نئے علاقے بن گئے جو اب شہر کا حصہ ہیں جیسے گارڈن ٹاون، فیصل ٹاون وغیرہ۔ دوسری جانب جامعہ پنجاب کا ایک کیمپس گوجرانوالہ میں بھی کھولا گیا ہے اور دوسرے شہروں کے لیے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ لاہور کے پرانے کیمپس کو علامہ اقبال کیمپس اور نئے کیمپس کو قائدِاعظم کیمپس کہا جاتا ہے جو ان کے سرکاری نام ہیں۔ جامعہ کا ایک ذیلی کیمپس خانس پور کے پہاڑی علاقے میں بھی قائم ہے مگر یہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہاں کوئی شعبہ مستقل بنیادوں پر قائم نہیں ہے۔ ان چار کیمپسوں کے ساتھ جامعہ پنجاب کی 13کلیات(فیکلٹیاں) ، 9 کالج اور 64 شعبے ہیں جبکہ اس کے الحاق شدہ کالجوں کی تعداد 434 ہے۔ جامعہ میں اساتذہ کی تعداد 700 سے زیادہ ہے اور طلباء کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہے۔

مال روڈ پر واقع جامعہ پنجاب کا قدیم کیمپس جو اب علامہ قبال کیمپس کہلاتا ہے برصغیر کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انگریز دور میں برصغیر کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں قائم ہونے والی یہ پہلی باقاعدہ یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے۔ اس دانش گاہ کا قیام ”لاہور گورنمنٹ کالج “ کے نام سے 1863ءمیں عمل میں آیا تھا ۔ جامعہ پنجابکے قیام کے بعد شمالی ہندوستان میں دیگر تعلمی ادارے اورئینٹل کالج(1865ئ) اور فارمین کرسچین کالج (1866ئ) کی بنیاد بھی پڑی۔ البتہ اس وقت ان تمام تعلمی اداروں کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ تھا۔ سید محمد لطیف پنجاب یونیورسٹی کے قیام کا سہرا یہاں کے عوام کو دیتے ہیں جنہوں نے اظہار رائے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ترسیل کے لئے یہاں تعلمی 
اداروں کے قیام پر زور دیا۔


”لاہور یونیورسٹی کالج“ کو 1869ءمیں یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔جامعہ پنجاب کی سینٹ کا پہلا اجلاس شملہ (موجودہ بھارت) میں ہوا جس میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ جب 1869ءمیں لاہور یونیورسٹی کالج کی توسیع ہوئی اور اس کا دائری عمل لاہور تک محدود نہ رہا بلکہ تمام صوبہ پنجاب کا تعلیمی نظام اس کے تحت لایا گیا تو پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 14اکتوبر 1882کو پنجاب یونیورسٹی پہلی مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ قانونی طور پر تسلیم کی گئی اور ایک مجلس انتظامیہ قائم ہوئی جسے سینٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب چارلز ایچیسن یونیورسٹی کے پہلے گورنر تعینات ہوئے۔ یہ برصغیر میں انگریز عہد کی چوتھی یونیورسٹی تھی۔ دیگر تین جامعات صرف امتحان لیتی تھیں مگر جامعہ پنجاب نہ صرف امتحانات لیتی تھی بلکہ ایک تعلیم دینے کی جامعہ تھی یعنی جامعہ پنجاب بجا طور پر برصغیر کی پہلی ایسی یونیورسٹی تھی جہاں باقاعدہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس سے پہلے ممبئی (سابقہ بمبئی)، مدراس(چنائی) اور کلکتہ میں جامعات تھیں۔

انیس سو دس تک پنجاب کے دس کالجوں کا جامعہ پنجاب کے ساتھ الحاق ہو چکا تھا۔ جن میں سینٹ سٹیفن کالج دہلی اور مہندر کالج پٹیالہ بھی شامل تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار بھی 
مقرر ہوئے تھے اور انہوں نے یونیورسٹی کے قیام اور اس کی تعمیر ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی عمارت جسے یونیورسٹی ہال بھی کہا جاتا ہے برصغیر کے معتبر ڈیزائنر بھائی رام سنگھ کی ڈیرائن کردہ ہے۔ یونیورسٹی ہال اینگلو مغل فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔ سرخ اینٹوں سے مزید بلندو بالا عمارت اور کلاک ٹاور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عمارت اینگلو مغل طرز تعمیر کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد 1905ءمیں رکھا گیا تھا۔ بلڈنگ کا حصہ مختلف سائز کے کئی گنبدوں پر مشتمل ہے جس میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے البتہ عمارت کے سامنے والے حصوں میں آچزکا استعمال کرتے ہوئے کے برآمدے تعمیر کئے گئے ہیں جو انگریز فن تعمیر کے عکاس ہیں۔ عمارت کے درمیانی حصے میں ڈیوڑھی کے اوپر بلند کلاک ٹاور ہے جبکہ دونوں اطراف چھوٹے مینار تعمیر کئے ہیں۔ جس کے باعث کلاک ٹاور کی شان و شوکت دوبالا ہو گئی ہے۔ کلاس ٹاور کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہے۔کلاک ٹاور کے اوپر کا حصہ اٹھکون شکل کا ہے جس کے اوپر گنبد نصب ہے۔ برآمدوں کی چھتیں چھوٹے گنبدوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ سرخ اینٹوں سے ایستادہ یہ عمارت اردگرد لگائے گئے درختوں اور سبزے میں اس دور کی امارت اور دلکش طرز تعمیر کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس حصے میں اب یونیورسٹی کے زیراہتمام کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن قائم ہے۔ کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن کا قیام بطور فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ 1940ءمیں ہوا تھا، اس کے قیام میں ملک کی نامور مصورہ اینا مولکا احمد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور وہ عرصہ دراز تک اس شعبہ کے ساتھ منسلک رہیں تھیں۔ 1942ءمیں یہاں بی اے اور 1955ءمیں ایم اے کی کلاسوں کا اجراءہوا۔ 1964ءمیں ایم ایف اے اور بی ایف اے گرافک ڈیزائن کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ 1998ءمیں کو انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دے دیا گیا اور گرافک ڈیزائن میں ایم ایف اے، بک السٹریشن ، گرافک پرنٹ میکینگ، پینٹنگ اور ایم اے پینٹنگ کا آغاز ہوا۔ 2003ءمیں یہاں ڈاکٹریٹ پروگرام شروع ہوا اور 2004ءمیں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت اس کالج کے زیراہتمام چھ شعبہ جات کام کر رہے ہیں اور ہر شعبہ تین ڈگری پروگرام کروارہا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ ہال 1876ءمیں تعمیر ہوا۔ یہ ہال پنجاب یونیورسٹی کے اعلیٰ ارکان کے اجلاس کے لئے تعمیر کیا گیا۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ مقصد کے اجلاس یہاں منعقد ہوتے تھے اور اب بھی اعلیٰ سطحی اجلاس یہیں منعقد کئے جاتے ہیں۔ سینٹ ہال کی عمارت جو 1876ءمیں تعمیر ہوئی تھی 1882ے سینٹ کے اجلاس کے لئے مخصوص کر دی گئی۔ ’نقوش لاہور نمبر‘ کے مطابق سینٹ ہال کی تعمیر ’تاریخ لاہور‘ کے مصنف رائے بہادر کنیا لال ایگزیکٹو انجیئر کے اہتمام ہوئی۔ اس عمارت پر چونتیس ہزار روپیہ صرف ہوا۔ سینٹ ہال پر ہزہائینس نواب صاحب بہاولپور کا نام کنندہ ہے۔ اس لئے کہ یہ عمارت نواب صاحب بہاولپور کا عطیہ ہے اور انہیں کے روپیہ سے یہ عمارت بنی ہے۔ سینٹ ہال کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ کا بنایا ہوا ہے۔ لاہور میں انگریز دور کی بیشتر عمارتوں کا ڈیزائن سر گنگا رام کا تیار کر دہ ہے لیکن اس حوالے سے بھائی رام سنگھ کی خدمات بھی ناقابل ستائش ہیں۔ انہوں نے گنگا رام کے ساتھ کئی اہم عمارتوں کو ڈیزائن کیا تھا۔ لاہور میں انگریز عہد کی تقریباً نوے فی صد اہم عمارتوں کے ڈیزائن بھائی رام سنگھ اور گنگا رام کی کاوشیں ہیں۔

نقوش لاہور نمبر کے مطابق سینٹ ہال کے عمارت پختیہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہے اور بقول کنہیا لال اس کا طول 128فٹ اور عرض80 فٹ ہے۔ ستونوں اور محرابوں میں بڑی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں اور باقی حصوں میں معمولی سائز کی اینٹیں لگائی گئی ہیں۔ باہر سے اس ہال رنگ سرخ اور اندر سفید پلاسٹر ہے۔ چھت کے اوپر سلیٹ کا پتھر لگا ہے۔ شہتیر دیودار کے ہیں۔ سینٹ کا بڑا کمرہ 71فٹ لمطا اور 24 فٹ چوڑا ہے اور دوسرا کمرہ مغربی سمت 49 فٹ چوڑا اور 20 فٹ لمبا ہے۔ ان سے ملحق بھی کئی چھوٹے بڑے کمرے ہیں ۔ سینٹ ہال کے برآمدے وسیع ہیں ۔ ماضی میں یہاں سینٹ کے جلسوں کے علاوہ علمی اور ادبی جلسے اور مشاعرے بھی ہوتے رہے ہیں ۔


پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی لائبریری بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ 1873ءمیں کالج کے سر ڈونلڈ میکلوڈ کے ذخیرہ کتب کو پچیس سو روپے میں لائبریری کے لئے خریدا۔ اس ذخیرے میں دوہزار کتب شامل تھیں۔1882ءیونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد میں قائم کی گئی تھی لیکن اس کا صحیح معنوں میں قیام اور تنظیمِ 1912ءمیں عمل میں آئی جب لائبریری کی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیاد پنجاب یونیورسٹی کے اس وقت کے چانسلر لیفٹیننٹ گورنر سرلوئیس ڈین نے 27فروری 1911ءکو رکھا تھا اور اپریل 1912ءکو انہوں نے ہی اس کا افتتاح کیا۔ نقوش لاہور نمبر کے مطابق یونیورسٹی لائبریری کے سنگ بنیاد رکھنے کے ایک ماہ بعد ہی لائبریری کو غیر متوقع ذریعے سے ایک بہت ہی بیش قیمت ذخیرہ مل گیا۔ مسٹر ایم ایچ، پرسیول، ایم ، آیی، ایس، پریذیڈنسی کالج کلکتہ میں انگریزی ادب کے پروفیسر تھے۔ 1911ءمیں جب وہ ریٹائر ہوئے تو انہوں نے اپنی چھ ہزار پانچ سو کتابوں کا ذکیری جو انہوں نے چھتیس ہزار روپے کی کثیر رقم سے اکٹھا کیا تھا لائبریری کی نذر کر دیا۔ یہ ذخیرہ تب سے ایک علیحدہ سیکشن کی صورت میں قائم ہے۔ اس مجموعہ میں فلسفہ، ادب اور شاعری پر بیش بہا اور قابل قدر تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1913ءمیں آغا محمد ابراہیم نے اپنے والد شمس العلما ءمولوی محمد حسین آزاد کی 1556کتابوں اور 389مخطوطات کا مجموعہ ہدیتہً لائبریری منتقل کر دیا یہ ذخیرہ زیادہ تر عربی پر مشتمل تھا۔ سر ایڈورڈ میکیگن جو 1919ءسے 1924ءتک یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے تھے انہوں نے بھی 389بہت ہی بیس قیمت جرائد لائبریری کو پیش کئے۔ اس دوران کتبا جو جمع ہوتی گئیں ان کی تنظیم و ترتیب 1916ءمیں مسٹر اے سی ڈکنسن نے کی جو لائبریری سائنس میں ایک امریکی ماہر تھے۔ یہ ترتیب ڈیوی ڈیسیمل کلاسیفکیشن سکیم کے مطابق کی گئی ، انہوں نے لائبریری کورس کا اجراءبھی کیا۔ مارچ 1929ءمیں پیرزادہ محمد حسین809کتابیں اور 165قلمی مسودات اور مئی 1934ءمیں پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی نے 759کتب اور125علمی کتابیں لائبریری کے سپرد کیں۔ اپریل1944ءمیں سر شہاب الدین کی چار ہزار کتب لائبریری کو ملیں۔ قیام پاکستان کے بعد یونیورسٹی لائبریری میں اور بھی اضافہ ہوا کیونکہ بہت اچھے اچھے ذاتی کتب خانے مثلاً سر منوہر لال کے کتب خانے کی 2154کتب اور پروفیسر برج نرائن کی 2380 کتب یونیورسٹی لائبریری منتقل کر دی گئیں۔ اسی طرح سر گنگا رام کی پانچ ہزار کتابیں ، مولوی محبوب عالم کی چھ ہزار پانچ سو کتب ، حکیم عبدالمجید عتیقی کی اٹھارہ سو کتب، پروفیسر محمد اقبال کی فلسفہ الہٰیات اور مذہب پر 1713کتب ، میاں احمد شفیع کی 1113کتب، پروفیسر ایم جی سنگھ کی دوہزار کتب کے مجموعے اس لائبریری کو حاصل ہوئے۔ علاوہ ازیں حافظ محمود شیرانی کی سترہ سو قلمی کتب کا نہایت قابل قدر ذخیرہ بھی اس لائبریری میں منتقل ہوگیا۔ 1988ءتک پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری یہیں قائم تھی بعدازاں اسے نیو کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ البتہ اس وقت بھی یہاں کتابوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔
پنجاب یونیورسٹی علامہ اقبال کیمپس کے اس حصے میں جہاں لائبریری اور سینٹ ہال ہے وہیں پنجاب یونیورسٹی کا کالج آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی قائم ہے۔ جہاں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس شعبہ کا قیام 1988ءمیں بطور کمپوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ عمل میں آیا تھا بعدازاں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنسز کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ پنجاب کالج آف انفامیشن ٹیکنالوجی کے ایک جانب شعبہ ہندی قائم ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے قیام کی پچیس سالہ تقریبات کے سلسلے میں 1933ءمیں پنجاب یونیورسٹی کے ایک نئے بلاک کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ جسے پنجاب یونیورسٹی یونین سوسائٹی کا نام دیا گیا۔ اس کا سنگ بنیاد 5 اکتوبر 1933ءکو سر میاں فضل الحق نے رکھا۔ وہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اس ہال کو کالج کے وائس چانسلر الفریڈ سی وولنر کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اب عمارت میں پنجاب یونیورسٹی کا کالج آف فارمیسی قائم ہے۔ فارمیسی کے ڈیپارٹمنٹ کو 1979ءمیں فکیلٹی کا درجہ دے دیا گیا تھا جبکہ اب اس کو پنجاب یونیورسٹی کالج آف فارمیسی کا درجہ حاصل ہے۔ اس ادارے کو چار شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں فاماسیوٹکس، فارماکیولوجی، فارماسیوٹیکل کیمسٹری اور فارماکوگنوسی شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری اور انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجیئرنگ اینڈ نیکنالوجی کے قائداعظم کیمپس میں منتقل ہوجانے کے بعد فارمیسی کالج کو کثیر حصہ میسر آگیا اور یہاں جدید لیباٹریز، لائبریری اور لیکچر تھیٹر کا قیام عمل آیا۔ اس کالج میں گریجویشن لیول پر فارمیسی کی تعلیم کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کروائی جارہی ہے۔

وولنر ہال اور سینٹ ہال کے درمیان ڈپارٹمنٹ آف اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام اور ڈیپارٹمنٹ آف سپورٹس سائنسز اینڈ فزیکل ایجوکیشن قائم ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ آف اردو انسلائیکوپیڈیا آف اسلام کے قیام کے بارے میں پہلی بار 1938ءمیں فیصلہ کیا گیا جب انگریزی انساکلوپیڈیا آف اسلام کی ایڈیشن کی تکمیل کے بعد یہ خیال کیا گیا کہ دنیا کے تمام اہم زبانوں میں اس نوعیت کا کام کیا جا چکا ہے لیکن اردو اس سے محروم ہے۔ لہذا اس کام کا بیڑا نامور سکالرز پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع اور ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے اٹھا جن کا تعلق اورئینٹل کالج سے تھا۔ البتہ اس شعبہ کا باقاعدہ آغاز 1950ءمیں ہوا۔ اس ضمن میں انسائیکلوپیڈیا کا پہلا حصہ 1992ءمیں مکمل ہوا جو 24والیمز (26حصے) پر مشتمل تھا اور اس میں اسلام اور مسلم دنیا سے متعلق 9973مختلف مضامین شامل تھے۔ اس کے علاوہ تحقیق اور تراجم کے شعبہ میں بھی بیش بہا خدمات سرانجام دی جا رہی ہے۔


پنجاب یونیورسٹی کی قدیم عمارت کے باہر مال روڈ ڈاکٹر الفریڈ کوپر وولنر کا مجسمہ نصب ہے۔ یہ لاہور میں انگریز عہد کا واحد مجسمہ ہے جو ابھی تک اپنی شان و شوکت کے ساتھ نصب ہے۔ الفریڈ وولنر پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ عرصہ دراز تک منسلک رہے تھے ۔ وہ سنسکرت کے استاد تھے اور ان کے پاس قدیم سنسکرت اور ہندی زبان کے پچاسی ہزار سے زائد قلمی نسخوں کا ذخیرہ جمع تھا۔ انہوں نے اس دانش گاہ کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1902ءسے لیکر 1928ءتک اعزازی لائبریرین کے طور پر خدمات سر انجام دیتے تھے ۔ 1903ءکو وہ یونیورسٹی رجسٹرار اور اورئینٹل کالج کے پرنسپل تعینات ہوئے اور 1928ءسے 1936ءتک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔


No comments:

Post a Comment