Thursday, June 24, 2010

Child Labor


محنت کش بچے.... معاش کی بھٹی کا ایندھن


چائلڈ لیبر ڈے کے حوالے سے فیچر


بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں۔معصوم بچے جو کسی بھی سماج میں ایک پھول کی حیثیت رکھتے ہیں ،جو معاشرے کی ایک انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ،جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے لیکن جب حالات سے مجبور ہو کران بچوں کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں محنت مشقت پر مجبور کر دیا جائے تو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پا رہا ہوتا ہے۔ یہ بے آسرا وبے یارومدد گار بچے آج اس نظام میں اپنا پیٹ پالنے اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے سڑکوں پر اپنا رزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور اُسی رزق کو تلاش کرتے کرتے کب وہ اس سرمائے کی منڈی میں داخل ہوجاتے ہیں اور چائلڈ لیبر کا شکار ہوجاتے ہیں خود اُن معصوم بچوں کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے اور پھر ناسور بن کر سماج کا چہرہ داغ دار اور بدصورت کردیتا ہے۔ معاشی بدحالی، بنیادی سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملک میں اس المیے کو جنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پوری دنیا اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میںبچوں سے محنت مشقت کروانے کی روایت موجود ہے اور اس کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی ہے۔ امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگا دیں تاکہ ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں۔ سکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں، ہوٹلوں، بس اڈوں، ورکشاپوں اور دیگر ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ محنت مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہو رہا ہے۔ جو کہ اس قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
’چائلڈ لیبر‘ سے مراد نوعمر اور کم سن بچوں سے محنت مشقت اور ملازمت کرانا ہے۔ یعنی بچے کو اس کے حق تعلیم و تفریح سے دور کر کے اس کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیا جائے۔ چائلڈ لیبر بچوں کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں چائلڈ لیبر کی شرح بہت زیادہ ہے اور عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) نے اس بارے میں اپنی رپورٹ ان الفاظ میں مرتب کی ہے ”ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ پھر ان بچوں میں سے تقریبا تین چوتھائی (سترہ کروڑ دس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی نیز خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔
چائلڈ لیبر کی تشریح اقوام متحدہ کا ادارہ انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ کچھ ان لفظوں میں کرتا ہے”وہ بچے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں وہ تمام بچے چائلڈ لیبرمیں شامل ہیں“۔ اس قسم کے بچے آج پوری دنیا میں ہمیں مختلف طریقوں سے اپنا پیٹ پالتے نظر آتے ہیں اگر ہم چائلڈ لیبر کا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو لاطینی امریکہ ،افریقہ اور ایشیا میں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر کا شکارنظر آتے ہیں،کچھ لوگوں کے مطابق ایشیا کے کئی ممالک کے اندر ایک سے دس افرادی قوت چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے ،جن میں بھارت میں دس سے چودہ سال کی عمر کے بچے جو مختلف قسم کی محنت مزدوریاںکرکے ایک دن کی روٹی کھا تے ہیں اُن کی تعداد تقریبا چار کروڑ چالیس لاکھ ہے ، پاکستان میں ایسے بچوں کی تعد اد تقریبا اسی لاکھ سے ایک کروڑ تک ہے ،بنگلہ دیش میں اسی لاکھ سے ایک کروڑ بیس لاکھ تک ،برازیل میں ستر لاکھ جبکہ ایک کروڑ بیس لاکھ تک بچے نائجیریا میں محنت و مشقت کرکے روزانہ اپنا پیٹ پالتے ہیں اور زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چائلڈلیبر کا افریقی ممالک میں تناسب سب سے زیادہ ہے ۔ ہیومین رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ” برکینا فاسو، چاڈ، ٹوگو، سیرالیون، نیجر، گھانا، کوسٹاریکا، سنٹرل افریقن ریپبلک میں پچاس فیصد(%50) سے زیادہ بچے چائلڈلیبر کا شکار ہیں۔ ان سب ممالک میں سے نائیجر میں یہ حد چھیاسٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کے وجہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے مگر زیادہ افراد کی کفالت ذمہ ہوتی ہے تو ایسے میں یہ والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے۔ چائلڈ لیبر عام طور پر غریب اور پسماندہ ممالک میں ہے۔ حکومتی سطح پر ان مسئلے کی جانب عدم دلچسپی اس مسئلے کا تیزی سے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے۔
12 جون کو محنت کش بچوںعالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا تقاضا ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس کنونشن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 20نومبر1989ءکو منظور کیا تھا۔ پاکستان 1990ءمیں اس کنونشن کا حصہ بنا تھا۔ اس کے آرٹیکل 32کے مطابق ”ریاست بچوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کرے گی اور انہیں ایسا کام کرنے سے روکا جائے گا جو ان کی تعلیمی معمولات کو متاثر کرے یا وہ بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے مضر ہو۔“ 2001-02ءکے دوران حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز (لیبر ڈیپارٹمنٹ، ٹریڈ یونینز، مالکان اور غیر سرکاری تنظیموں) سے مشاورت کی تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن 182کے تحت بچوں کے لئے کون سے پیشے یا کام نامناسب ہیں۔ اس مشاورت سے ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہوا اور درج ذیل پیشوں اور کاموں کی فہرست تیار ہوئی جو بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بہتر نہیں ہیں ۔ (1کان کنی(2 طاقت ورمشینوں پر کام کرنا (3بجلی کی ایسی تاروں پر کام کرنا جن میں بچاس واٹ سے زیادہ کرنٹ ہو (4چمڑے کی صفائی سے متعلقہ تمام کام (5کیڑے مار ادویات کو ملایا اور ان کا استعمال (6شیشہ سازی (7کیمیکل انڈسٹری (8کوئلے کی صنعت (9 سیمنٹ انڈسٹری (10آتش بازی کے سامان کی تیاری اور فروخت (11ایسی جگہ پر کام کرنا جہاں سیلنڈروں میں سی این جی یا ایل پی جی بھری جاتی ہے (12شیشے اور دھات کو پگھلانے والی بھٹیاں (13کپڑے کو رنگنے، پرنٹ کرنے اور پیکنگ کا عمل (14سیوریج پائپ لائنوں اور اس سے منسلک کام (15پتھروں کو توڑنے کا عمل(16 سامان اٹھانا یا ٹرکوں پر لوڈ کرنا(پندرہ کلوگرام سے زیادہ) (17صبح دس سے شام آٹھ بجے تک ہوٹلوں میں کام کرنا(18 قالین بافی (19زمین سے دو میٹر کی بلندی پر کوئی بھی کام کرنا(20 کوڑا کرکٹ سے پلاسٹک، کاغذ یا ہسپتال سے فاضل سامان چننا (21تمباکو کی صنعت سے وابستگی (22ماہی گیری (23بھیڑوں کی کھالوں سے اون کا حصول کرنا (24آلات جراحی کی صنعت (25بحری جہاروں کو توڑنا اور (26چوڑیاں بنانے والی بھٹیاں اس فہرست میں کئی غیر رسمی پیشے شامل نہیں ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ان میں زراعت، بھٹہ خشت، گھریلو ملازمت، گھریلو صنعتیں، دوکانوں اور ورکشاپوں پر کام کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور خود اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مزدور بچوں پر آخری سروے 1996ءمیں ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں 33 لاکھ مزدور بچے ہیں۔ جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے۔ مزدور بچوں کا اسی فیصد تو غیر رسمی شعبہ میں ہیں۔ جیسے گھروں میں اورکھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں ہے۔
سماجی بہبود کے اعدادوشمار کے مطابق باقاعدہ شعبوں میں کام کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سے بیس لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری سے متعلق جو قوانین ہیں ان میں بچے کی تعریف میں ایسے نو عمر لوگ ہیں جن کی عمر ابھی پوری چودہ سال نہیں ہوئی جبکہ عالمی کنوینشنز میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ ملک میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور یہ سب بچے کسی وقت بھی نو عمر مزدور بن سکتے ہیں۔
جراحی کے آلات بنانے کے کارخانوں میں ہزاروں بچے مزدوری کرتے ہیں اور ملک ان کی محنت سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا ہے یہ بچے ریتی پر دھات کے گھسنے سے نکلنے والی دھاتی دھول کو بھی سانس کے ساتھ اندر لے کر جاتے ہیں جو ان کے کام کا بہت خطرناک پہلو ہے اسی طرح ڈینٹنگ پینٹنگ اور فرنیچر پالش کرنے والے بچوں کے پھیپھڑے بھی رنگ اور پالش میں موجود مختلف کیمیکلز سے متاثر ہوتے ہیں اور ٹی بی کا باعث بنتے ہیں۔ کم عمر بچوں کا اپنے والدین سے دور مستریوں کی نگرانی میں کام کرنا بھی بذات خود کئی مشکلات کا باعث بنتا ہے کیونکہ ان ورکشاپوں کے مالکان کا ان بچوں سے کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہوتا۔
ملک بھر میں بچے کوڑا اٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں جس میں وہ ہسپتالوں کا کوڑا بھی اٹھاتے ہیں۔ جس میں خطرناک بیماریوں میں استعمال ہونے والی پٹیاں، ٹیکے وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے اور بہت سے والدین اگر پیسوں کے لئے نہیں تو صرف اس لئے بچوں کو کام پر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کوئی ہنر سیکھے گا کیونکہ حکومتی نظام تعلیم میں مستری، بڑھئی یا ٹیکنیشن اور اس طرح کے دوسرے ہنر نہیں سکھائے جاتے ہیں اور نہ ہی ایسے ہنر سکھانے والے ادارے موجود ہیں۔ تاہم غربت کے ساتھ کئی اور عوامل بھی اہم ہیں۔ مثلاّ قالین بافی کے صنعت میں بچوں کی بہبود کے لیے آئی ایل او کے منصوبہ پر کام کرنے والے اہلکار کے مطابق قالین بافی میں صرف بائیس فیصد بچے خاندان کی غربت کی وجہ سے تھے جبکہ علم کی طرف رغبت دلانے پر پینتالیس فیصد بچوں نے قالین بانی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر سکولوں کا رخ کر لیا۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات بچوں کی مزدوری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور بنیادی تعلیم سے بھی مزدور بچوں کے حالات میں بہتری آسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے 2005ءمیں اونٹ ریس میں بچوں کے استعمال پر پابندی لگائے جانے کے بعد وہاں سے تقریباّ سات سو بچے واپس پاکستان بھیجے گئے۔ گزشتہ اڑھائی سال کے دوران بچوں کی سمگلنگ میں ملوث چھ سو ملزمان کیخلاف مقدمات درج ہوئے جن میں سے صرف چونسٹھ افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔ 2002ءمیں ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا تھا جس کے تحت اس کاروبار میں ملوث افراد کو چودہ سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پاکستان سے بیرونی ممالک کو بچوں کی سمگلنگ 1989ءمیں شروع ہوئی اور ہنوز یہ دھندہ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی روک تھام کیلئے حکومت کو مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچوں سے مزدوری لینے کے کام میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور امید ہے کہ یہ غیر قانونی کام 2015ءتک دنیا کے تمام ممالک میں ختم ہو جائے گا۔ آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بجائے چائلڈلیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی۔ لہٰذا چائلڈلیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پرہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم، علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈلیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

بچوں کے حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم سپارک نے سال 2008ءمیں پاکستان میں بچوں کی حالت پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بچوں پر تشدد ، صحت و تعلیم ، اندرون ملک نقل مکانی ،بچوں سے مشقت ،بچوں لیے انصاف اور میڈیا کے ذریعے تشدد کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سال 2008ءمیں چائلڈ لیبر و ٹریفکنگ ، بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد ، قتل ، اغواءاور خودکشی کے مجموعی طور پر 6780 واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں 4251 لڑکے اور 2529 لڑکیاں شامل ہیں ۔ تشدد کے واقعات کے حوالے سے صوبہ پنجاب سر فہرست رہا جہاں یہ تعداد 3772 تھی ۔ سندھ 2412، سرحد 498 اور سب سے کم واقعات بلوچستان میں پیش آئے جہاں یہ تعداد 98 رہی ۔

اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بچپن اور لڑکپن کی لاپرواہ زندگی اور کھیل کود کی لذتوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو۔بغیر کسی فکر وفاقہ کے چین کی نیند سوئے اور سکون کے ساتھ خوشگوار انداز میں زندگی گزارے۔اس کے ساتھ ہی حصول تعلیم بھی اس کا بنیادی حق ہے کہ اس حق کی بناءپر ہی وہ اپنا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے۔ کمسن بچوں کو ان کے ان بنیادی حقوق سے محروم رکھنا اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ عام لوگوں کو بھی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچے جو اس قوم کے معمار ہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

Monday, June 14, 2010

J.M.Coetzee


جے۔ ایم۔ کوئٹسی

جنوبی افریقہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب کا زندگی نامہ



نوبل انعام یافتہ ادیب جان میکسویل کوئٹسی نے اپنی تحریروں کے ذریعے تشدد،تعصبات، برداشت اور تحمل جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ وہ اپنی سر زمین جنوبی افریقہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”وہاں کے لوگ زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ان کے ارد گرد کی دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ تبدیل ہوتا ہوا یہ منظر نامہ ان کی نسل کی بقا کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔“ جذباتی احساسات کا اظہار اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا انسان جان میکسویل کوئٹسی کے فن کے بنیادی موضوعات ہیں۔ نسلی فسادات ، اقدار کی جنگ، دوسروں پر تسلط کی کوششیں، جنوبی افریقہ کی قدیم قبائلی رسومات، ظلم اور جہالت کی داستانیں ان کے ناولوں کا اہم حصہ ہیں۔ انہوں نے انسانی نفسیات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور معاشرتی اور سیاسی سطح پر انسان کی نفسیات کا نہایت جامع انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔ جنوبی افریقہ کے دیگر ادیبوں کے بر عکس کوئٹسی نے عوامی اور نجی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور ذاتی زندگیوں کو ایک ہی سطح پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے شہرہ آفاق ناولوں میں ’ویٹنگ فار دی باربیرین“۔”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“۔”دی ماسٹر آف پیٹرسبرگ“اور”ڈسگریس“شامل ہیں۔ جبکہ ان کی دوبائیوگرافی کی کتابیں ”بوائے ہُڈ“ اور ”یوتھ“ شائع ہو چکی ہیں۔

جان میکسویل کوئٹسی  9فروری 1940ءکو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاﺅن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے وکیل اور والدہ سکول ٹیچر تھیں۔ ان کے آباءو اجداد نے سترہویں صدی میں ہالینڈ سے اس خطے میں ہجرت کی تھی۔ کوئٹسی کا پیدائشی نام جان کوئٹسی تھا لیکن نوجوانی میں انہوں نے اپنے نام میں میکسویل کا اضافہ کر لیا تھا۔ جان کوئٹسی نے اپنے بچپن کا بیشتر حصہ کیپ ٹاﺅن میں بسر کیا۔ جس کا احوال اس کی کتاب ”بوائے ہُڈ“ میں ملتا ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کالج کیپ ٹاﺅن سے حاصل کی۔ بعدازاں یونیورسٹی آف کیپ ٹاﺅن سے انگریزی اور ریاضی کے مضامین کا انتخاب کیا۔ انہوں نے 1960ءمیں انگریزی میں آنرز اور 1961ءمیں ریاضی میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ آئی ٹی کے شعبہ سے منسلک ہو گئے ۔ بعدازاں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے آبائی شہر واپس آگئے۔ اور یونیورسٹی آف کیپ ٹاﺅن میں بطور لیکچرار 2791ءسے 1983ءکے عرصہ کے دوران تعینات رہے۔ 1984ءمیں جان کوئٹسی امریکہ کی سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے۔ اس دوران وہ جان ہوپکنز یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 

جان میکسویل کوئٹسی کی شادی 1963ءمیں ہوئی جو کہ 1980ءتک قائم رہی۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ لیکن ان کا بیٹا تیئس برس کی عمر میں کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ جان کوئٹسی کی اپنی بیوی سے علیحدگی اور طلاق کی وجہ ان کے دوستوں نے کوئٹسی کی تنہا پسند طبیعت کو قرار دیا۔ ان کی تنہا پسندی اس وقت اور بھی کھل کر سامنے آئی جب انہیں بُکر پرائز کی تقریب کے لئے لندن مدعو کیا گیا۔ 1984ءمیں ان کی کتاب ”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“ اور 1999ءمیں ’ڈسگریس“ کو بھی بُکر پرائز سے نوازا گیا لیکن وہ انعامی تقریب میںشریک نہ ہوئے۔

 ادیب ریان مالان ان کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”وہ نہایت منظم اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے، سگریٹ نوشی نہیں کرتے اور گوشت بھی نہیں کھانے۔ وہ اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لےے کئی کئی میل سائیکل چلاتے ہیں اور روز صبح کم از کم ایک گھنٹہ اپنے لکھنے کی میز پر گزارتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی جس نے ان کے ساتھ ایک دہائی سے زائد کام کیا ان کو صرف ایک مرتبہ ہنستے ہوئے دیکھا۔ جبکہ ڈنر کی تقریبات میں وہ ایک لفظ بھی بولنا پسند نہیں کرتے۔“ البتہ جان میکسویل کوئٹسی کی تنہائی پسندی ان کی شہرت میں کبھی رکاوٹ کا سبب نہیں بنی۔ آج بھی ان کی کتابیں دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں ۔ بطور ادیب جان کوئٹسی کا الہام ان کی اپنی ذات اور جنوبی افریقہ میں کئے گئے مشاہدات و تجربات ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تعصبیت کے دور میں بھی انہوں نے بطور ایک سفید فارم ادیب کی حیثیت سے اس کی مخالفت کی۔ ان کی تحریریں جنوبی افریقہ کے دیگر ادیبوں سے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ جان کوئٹسی یورپ اور امریکہ کے ما بعداز جدیدیت کے فلسفے کے قائل ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ کے کئی ادیبوں سے متاثر ہیں۔ جنہوں نے سامراجی کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ ان کی تحریروں میں ان کی ذاتی زندگی، مشاہدات اور عقائد کے بارے میں بھی بے پناہ مواد ملتا ہے۔ وہ اپنی سرگزست حیات”بوائے ہُڈ:سینز فرام پروونشل لائف“ میں خود کو ’افریکانر‘(افریقی زبان بولنے والا ولندیزی نسل کا باشندہ) قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی اور دیگر ناولوں میں بھی نسلی تعصبات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ 

اپنے پہلے ناول’ڈسک لینڈز‘ میں جان میکسویل کوئٹسی نے دو کہانیاں بیان کیں ہیں۔جن میں ویت نام میں امریکہ کا کردار اور جنوبی افریقہ میں جیکبس کوئٹسی نامی ایک شخص نئے جہانوں کی تلاش کی سفر شامل ہیں۔ یہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھیں لیکن انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں اسے بیان کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جارحیت کے ذریعے کس طرح کسی علاقے اور قوم پر اپنے تسلط قائم کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک ثقافت دوسری ثقافتوں کے ساتھ بھی ملاپ کا سبب بنتی ہے۔ انہیں بُوکر پرائز ان کے ناول ”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“ پر دیا گیا۔ اس ناول میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کیپ ٹاﺅن کی منظر نگاری کی ہے۔ اس ناول انہوں نے کیپ ٹاﺅن شہر میں نسلی تعصبات اور اس دوران ہونے والی خونریزی کی بنیاد پر کہانی بیان کی ہے۔ یہ ناول ایک نوجوان مالی مائیکل کے کی داستان ہے۔ جو خونزیری کے دنوں میں اپنے دم توڑتی ہوئی ماں کو فارم ہاﺅس لے کر جارہا ہوتا ہے۔ اس سفر کے دوران اس کی ماں دم توڑ دیتی ہے اور مائیکل اس فارم میں اپنی ماں کی راکھ کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ وہ اس فارم ہاﺅس میں تنہائی کی زندگی پر امن طریقے سے گزار رہا ہوتا ہے کہ اسے جنگجو گوریلوں کی امداد کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ کوئٹسی نے پورے ناول میں نسلی فسادات کو مرکزی خیال بنانے کی بجائے انسانیت کی قدرو اہمیت اور انسانی رویوں کو باریک بینی سے بیان کیا ہے۔

ان کا آخری ناول ’ڈسگریس‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کو بھی بُکر پرائز کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس ناول میں کوئٹسی نے جنوبی افریقہ کے ثقافت اور معاشرتی روایات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ناول ایک جنوبی افریقین پروفیسر ڈیوڈ کی کہانی ہے۔اس کی جوان بیٹی لوسی ایک فارم ہاﺅس میں رہتی ہے، پروفیسر اسے ملنے جاتا ہے اور اس دوران دو آدمی اور ایک لڑکے پر مشتمل گروہ اس کی بیٹی کی عصمت دری کر دیتا ہے۔ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد وہ پروفیسر اپنی بیٹی کے پڑوسی کے گھر ایک پارٹی میں اسی لڑکے کو دیکھتا ہے۔ وہ اس گھر کے مالک پیٹرس نے انصاف کا تقاضا کرتا ہے ۔لیکن پیٹرس اس کے سامنے شرط رکھتا ہے کہ اگر اس کی بیٹی اس لڑکے کے ساتھ شادی کر لے تو آئندہ اس پر کسی قسم کا حملہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ ناول بنیادی طور پر جنوفی افریقہ کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ جائیداد، جرائم، ریپ، نسلی امتیاز اور پولیس کی تحفظ نہ ہونا اور اس ناول میں بتائے گئے تمام خیالات آج کے جدید دور میں بھی جنوبی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ 
جان میکسویل کوئٹسی کی تحریروں کو کسی حد تک یکسانیت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے ناولوں کا مرکز ایک کردار ہوتا ہے اور اسی کی نفسیات کے اردگرد وہ کہانی کا تانا بانا بنتے ہیں۔ ان کی ناول میں کوئی واضح پیغام بھی نہیں ملتا البتہ وہ منظرنگاری اور کردارنگاری سے ایسا ماحول تخلیق کر دیتے ہیں کہ قاری کو بذات خود نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 


جان میکسویل کوئٹسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں مسائل کا حل پیش نہیں کرتے بلکہ مسائل کی نشاہدہی کرتے ہیں۔ اب یہ قاری کا فرض ہے کہ وہ ان مسائل کا حل کس انداز میں نکالتا ہے اور کیا سوچتا ہے۔ 

اکتوبر 2003ءکو نوبل اکیڈمی کی جانب سے انہیں ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ وہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے چوتھے ادیب ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان کے بارے میں نوبل اکیڈمی کا کہنا تھا کہ ”ان کے تحریروں کا مرکزی خیال جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے نسلی امتیازانہ رویے ہیں، اور ان کے خیال میں ایسی صورتحال دنیا میں کہیں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ “ نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے اکیڈمی نے اپنے علامیے میں ان کے بارے میں لکھا کہ ”نہایت عمدہ مرکبات، جاندار مکالمے اور حیرت انگیز بیانیہ انداز ان کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ انسانی ذہن کی کمزوری اور شکست کو شعلہ کی مانند بیان کرتے ہیں۔“ ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ”ہماری تاریخ میں عام لوگ ہمارے حکمران رہے اور انہوں نے ہمیشہ عامیانہ فیصلے کئے۔ میرے خیال میں گزشتہ چالیس برسوں میں اخلاقیات کے حوالے سے بحث میں جنوبی افریقہ اہم مقام رہا ہے۔

Saturday, June 12, 2010

Seamus Heaney

بکھرتے رنگوں کا شاعر

آئرلینڈ کے نوبل انعام یافتہ شاعر شیمس ہینی کا زندگی نامہ




میں نے ہمیشہ لکھنے کے عمل کو خوشی اور ایک پوشیدہ انعام کے حصول کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ میرا اعتقاد ہے کہ جو کچھ لکھا جانا چاہئے وہ خوبخود لکھا جاتا ہے۔ “ یہ کلمات آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے شاعر شیمس ہینی کے ہیں۔ ان کا شمار موجودہ دور کے معتبر ترین شعراءمیں کیا جاتا ہے۔ شیمس ہینے نے آئرلینڈ کی دیہاتی زندگی، قدرتی مناظر، سیاسی و تاریخی صورتحال اور اپنی بچپن کے یادوں کو شاعری کے پیراہن میں پیش کیا ہے۔ انہیں 1995ءمیں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

شیمس ہینی 13اپریل 1939ءکو شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کاشتکاری کے شعبہ سے منسلک تھے اور لگ بھگ پچاس ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ان کا خاندان شمالی آئرلینڈ میں موسبان کے قصبہ میں مقیم تھا۔ شیمس نو بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ والد کا تعلق کاشتکاری اور مویشی بانی سے ہونے کے باعث انہوں نے بھی ابتدا میں اسی پیشے کو اپنانے کا سوچا لیکن کبھی یہ پیشہ اختیار نہ کر سکے۔ ان کے والد پیٹرک ہینی کی وفات کے بعد شیمس ہینی نے اپنے چچاﺅں کی زیر سرپرستی بچپن گزارا۔ ان کی والدہ کا تعلق میکین خاندان سے تھا،یہ خاندان سرمایہ داری سے منسلک تھا۔ ہینی شیمس کے مطابق آئر لینڈ میں صنعتی انقلاب اور ان کے خاندان کے کشیدہ تعلقات نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پریشانیاں اور غم انہیں ورثے میں ملے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے والد خاموش طبع اور والدہ خاصی زبان دراز خاتون تھیں جس کے باعث اکثر ان کے والدین کے درمیان تلخ کلامی ہوتی تھی ۔اس قسم کی صورتحال میں وہ ذہنی کشمکش کا شکار رہتے جس کو انہوں نے شاعری کے روپ میں ڈھالا۔

شیمس ہینی نے اپنا بچن دیہات کے سرسبز و شاداب ماحول میں گزارا۔ ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے وہیں سے حاصل کی۔ انہوں نے کم عمری میں آئرلینڈ میں امریکی فوج کو مشقیں اور مارچ کرتے ہوئے بہت قریب سے بھی دیکھا۔ صوبہ نومینڈی صوبہ میں ان کے گھر کے قریب ہی فوجی اڈہ قائم تھا۔ اس عرصہ میںبھی وہ ذہنی انتشار کا شکار رہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو جدید معاشرے اور زمانہ جہالت کے درمیان کھڑا ہوا پاتے تھے۔ شیمس ہینی نے زندگی میں ایک مقام پر کبھی زیادہ عرصہ قیام نہیں کیا، ان کا خاندان مختلف مقامات پر منتقل ہوتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جائے پیدائش سے دور جاتے رہے۔ لیکن یہ فاصلہ صرف جسمانی طور پر تھا، دیہات کا عکس ہمیشہ سے ان کے ذہن پر منقش رہا۔

شیمس ہینی نے 12برس کی عمر میں کیتھولک بورڈنگ سکول سینٹ کولمبز کالج میں داخلہ لیا۔ جہاں کورس کی کتابوں کے ذریعے ان کی ملاقات ولیم شیکسپئر، چوسر، ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس سے ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاطینی زبان بھی سیکھی۔ یہ ادارہ ڈیری نامی شہر میں واقع تھا جو ان کے والد کے فارم ہاﺅس سے چالیس میل کے فاصلے پر قائم تھا۔1961ءمیں انہوں نے یونیورسٹی آف بیلفاسٹ سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں وہ سینٹ جوزف کالج میں بطور تربیتی استاد تعینات کر دیئے گئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہاں سے سینٹ تھامس اکیڈمی چلے گئے۔ سینٹ تھامس اکیڈمی میں بطور استاد انہوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا جہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر مائیکل میکلاورٹی نے ان کے اندر پوشیدہ شاعرانہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب شیمس ہینی کی شاعری ادبی جرائد کا حصہ بننا شروع ہوئی تھی۔ 1963ءمیں انہوں نے مختلف جرائد کے لئے مضامین نگاری کا آغاز بھی کر دیا۔ بیلفاسٹ یونیورسٹی میں بطور لیکچرر تعیناتی کے بعد انہوں نے طلباءکی ادبی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا اور نوجوان شاعروںکے لئے ایک باقاعدہ فورم کا قیام بھی عمل میںلائے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب 1965ءمیں ’اوور نائن ویوز‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ جبکہ 1966ءمیں ’ڈیتھ آف اے نیچرلسٹ‘ منظر عام ہر آئی۔ ان کتابوں کو بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی اور انہوں نے متعدد ایوارڈز حاصل کئے۔ 1969ءمیں ان کا دوسرا دیوان ’ڈور ان ٹو دی ڈارک‘ شائع ہوئی تھی۔


 شیمس ہینی کا الہام دیہات کی زندگی اور ان کا بچپن ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں آئر لینڈ کے دیہاتی زندگی کی منظر نگاری کی ہے۔ خاص طور پر آئرلینڈ کے شمالی علاقے ، جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ان کی شاعری آئر لینڈ کے دیہاتی علاقوں کی شاندار منظر کشی کرتی ہے۔ قدرتی مناظر اور دیہاتی زندگی کے ساتھ گہرا رابطہ ان کی شاعری میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف منظر نگاری کی ہے بلکہ انسانی نفسیات اور رویوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان علاقوں میں سماجی تفریق اور ذات پات کی بنا پر تقسیم بھی ان کی شاعری کا موضوع بنی رہی ہے۔ انہوں نے شاعری میں سیاست یا فوجی اقتدار کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا بلکہ اپنی یاد داشتوں کے ذریعے اپنے خیالات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کی تخلیقات کا کچھ حصہ تاریخی موضوعات کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں حاصل کیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی موضوعات بھی ان کی شاعری کا حصہ رہے ہیں جن میں ان کی ذاتی زندگی، خاندان، اپنے خاندان کے افراد کی کردارنگاری بھی شامل ہیں۔ وہ بذات خود کہتے ہیں کہ میری نظموں میں آپ کو میرے خاندان کے افراد کا عکس نظر آسکتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق نظم ’ڈگنگ‘ ان کے خاندانی پس منظر کی عکاسی کرتی ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں بچپن سے ہی بہت سارے پیشے منتخب کرنے کے مواقع ملے لیکن انہوں نے ادب کے ساتھ ناطہ قائم کرنے کو فوقیت دی۔ ان کے شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حواس خمسہ پر خوشگواراثرمرتب کرتی ہے۔ ان کی شاعری کے انتخابی مجموعوں ’دی ریٹل بیگ‘ اور ’دی سکول بیگ‘ کو برطانیہ کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ شیمس ہینی کی شاعری کو آئرلینڈ کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سراہا جاتا ہے۔ رابرٹ لویل ان کو ییٹس کے بعد آئرلینڈ کا سب سے اہم شاعر کہتے ہیں ۔

شیمس ہینی کی نظموں میں کسی حد تک ان کی سیاسی نظریات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اپنے شعری مجموعے ’ونٹرنگ آﺅٹ‘ میں انہوں نے آئر لینڈ میں خانہ جنگی کے دوران موت کے منہ میں چلے جانے والے نوجوانوں کے لئے غم کا اظہار کیا ہے۔ ان کے شعری مجموعوں ’نارتھ‘ اور ’فیلڈورک‘ میں انہوں نے شمالی آئرلینڈ کی سیاسی صورتحال کی منظر کشی ہے ۔ ان کے دیگر معروف شعری مجموعوں میں ’سٹیشن آئی لینڈ‘ ، ’دی ہا لنٹرن‘، ’سینگ تِھنگز‘ اور ’دی سپرچوئل لیول‘ شامل ہیں۔


Wednesday, June 9, 2010

Orhan Pamuk


اپنی ذات کی تلاش کا سفر
  
ترکی کے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پاموک کا زندگی نامہ 



اورہان پاموک کہتے ہیں کہ ”بہت چھوٹی عمر سے ہی میرے ذہن میں ایک خیال نے جنم لیا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں میری دنیا اس سے بڑھ کر ہے۔ استنبول کی گلیوں میں کہیں، میرے گھر سے ملتا جلتا کوئی گھر ہے جہاں ایک اور اورہان رہتا ہے۔پھر جب میرے والدین کا آپس میں جھگڑا ہوتا تو میں اپنی توجہ اس طرف سے ہٹانے کے لئے ایک کھیل کھیلتا تھا۔ وہ یہ کہ اپنی والدہ کی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو جاتا اوراس پر لگے تین شیشوں میں اپنے عکس میں دوسرے اورہان کو تلاش کرتا۔“ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی ذات کی تلاش کا یہی کھیل بعدازاں انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پاموک کا شمار جدید ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔اورہان پاموک نے اپنے ناولوں میں متنازعہ مسائل سے نمٹنے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی ۔انہوں نے موجودہ دور کے مسائل اور تہذیبوں کے ملاپ کو اپنے تحریروں کا مرکزی خیال بنایا ہے۔ ان کی کتابیں 40سے زائد زبانوں میں ترجمے کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں ۔

اورہان پاموک 7جون 1952کو ترکی کے شہر استنبول کے ایک سرمایہ دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کا خاندان معاشی طور پر غیر مستحکم صورتحال کا شکار تھا۔ انہوں نے اسی حوالے سے اپنے خیالات اور مشاہدات اپنے ناولوں ’دی بلیک بک‘۔ ’مسٹرکیوڈٹ اینڈ ہز سنز‘ اپنی سرگزشت حےات ’استنبول‘ میں قلمبند کئے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم رابرٹ کالج سکینڈری سکول استنبول سے حاصل کی۔ اورہان پاموک کو پچپن سے ہی مصوری میں دلچسپی تھی اور انہوں نے بچپن میں مصوری میں نام پیدا کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے مضمون کا انتخاب کیا۔ ان کے خیال میں فن تعمیر مصوری سے مماثلت رکھتا ہے۔ لیکن تین برس بعد ہی انہوں نے آرکیٹیکچر کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور یونیورسٹی میں صحافت کے مضمون میں گریجویشن کی۔ اسی دوران انہوں نے کہانیاں اور ناول لکھنے کا آغاز کیا۔ بائیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان انہوں نے اپنا پہلا ناول لکھا اور پبلشرز کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیا۔اورہان پاموک کا تعلق مسلم گھرانے سے ہے لیکن انہوں نے اپنی تحریروں میں یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی شخص کی پہچان مذہب کے ساتھ ساتھ تاریخی اور ثقافتی پس منظر میں کی جانا چاہئے۔ 1974ءمیں اورہان پاموک باقاعدہ طور پر ناول نگاری کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ ان کا پہلا ناول ”ڈارکنیس اینڈ لائیٹ“ تھا جسے 1979ءمیں میلیٹ پریس کی جانب سے بہترین ناول کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ناول بعد ازاں ”مسٹر کیوڈیٹ اینڈ ہز سنز“کے نام سے1982ءمیں دوبارہ شائع ہوا۔ یہ ناول استنبول کے نواح میں بسنے والے ایک دولت مند خاندان کی تین نسلوں کی داستان تھی۔ اس ناول کا بیشتر حصہ اورہان پاموک کی ذاتی زندگی سے اخذ کیا گیا تھا۔ 

اورہان پاموک نے اپنے فنی سفر کے آغاز میں ہی کئی عالمی اعزازت و انعامات حاصل کئے۔ ان کے ناول ”دی وائیٹ کاسل“ کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں تبصرہ شائع ہوا کہ ”مشرق میں ایک نیا ستارہ ابھر کے سامنے آیا ہے۔۔۔ اور وہ اورہان پاموک ہے“۔ اورہان پاموک کی تحریروں میںکئی طرح کے موضوعات نظر آتے ہیں۔ ابتدائی ناولوں کے علاوہ ان کی تحریروں میں ما بعد ازجدیدیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ 1990ءمیں شائع ہونے والا ناول ’دی بلیک بُک‘ اورہان پاموک کا کامیاب ترین ناول قرار دیا جاتا ہے۔ موضوع، تکنیک اور پسندیدگی کے اعتبار سے اس ناول کو ترک ادب کا متنازعہ لیکن کامیاب ترین ناول سمجھا جاتا ہے۔ ان کے چوتھے ناول ’نیو لائف‘ کو بھی قارئین کی جانب سے توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اسی دوران انہوں نے کردوں کی حمایت میں سیاسی مضامین بھی لکھے۔ جس میں انہوں نے کردوں کے ساتھ ترک حکومت کے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کے مضامین کی کتاب ’ادر کَلرز‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ 

اورہان پاموک کو بین الاقوامی شہرت 2000ءناول ’مائی نیم از ریڈ‘ سے حاصل ہوئی۔ یہ ناول رومانس، سسپنس اور فلسفیانہ معموں کا مجموعہ تھا۔اس میں انہوں سولہویں صدی کے استنبول شہر کا تقشہ کھینچا تھا۔ یہ ناول سلطنت عثمانیہ کے سلطان مورت سوئم کے دور کی منظر نامہ پیش کرتا ہے، جس میں مشرق اور مغرب کے درمیان تضادات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ ناول چوبیس زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ اس ناول کو 2003 ءمیں انٹرنیشنل امپیک ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر اورہان پاموک کا کہنا تھا کہ ” میری زندگی میں کچھ تبدیلی نہیں آئی۔ میں نے تیس برس کا عرصہ ناول نگاری کرتے ہوئے گزارا ہے۔ پہلے دس برس میں پیسوں کے حوالے سے کشمکش کا شکار تھا اور کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ میں نے کتنے پیسے کمائے۔ دوسرے عشرے میں میں نے پیسے خرچ کئے تب بھی مجھ سے کسی نے اس بارے میں نہیں پوچھا۔ اور گزشتہ دس برس میں نے لوگوں سے یہ امید رکھی کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ میں پیسہ کیسے خرچ کرتا ہوں لیکن میں انہیں مطلع نہیں کرنا چاہوں گا۔ ان کا اگلا ناول ’سنو‘ تھا۔ جس میں انہوں نے ترکی کے ماڈرن معاشرے میں اسلام اور مغربی رجحانات کو موضوع بحث بنایا تھا۔

وہ اپنی سرگزشت ’استنبول‘ کے حوالے کہتے ہیں کہ ”میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی یاداشتیں چھ ماہ میں لکھوں گا۔ لیکن مجھے یہ کام مکمل کرنے میں ایک سال لگ گیا۔ اس دوران میں نے ہرروز بارہ گھنٹے لکھنے اور پڑھنے پر صرف کئے۔ میری زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔طلاق، والد کی موت، پروفیشنل مسائل۔ ان کے علاوہ اور بہت سارے مسائل۔ اگر میں کمزور ہوتا تو سخت ڈپریشن کا شکار ہو جاتا۔ لیکن ہر روز میں صبح ایک نئے جذبے کے ساتھ تحریر کا آغاز کرتا اور کتاب کی خوبصورتی کو اپنے ذہن میں رکھتا۔ “

اورہان پاموک نے اپنی زیادہ تر تحریروں میں انسانی شناخت کو موضوع بحث بنایا۔ ان کے خیال میں مشرق اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تضادات اور مشرقی تہذیبوں پر مغربی ثقافتوں کے اثرات نے انسان کی شناخت معدوم کر دی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں ہمیں ادب اور مصوری کے حوالے سے بحث و مباحثہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ مجموعی طور پر ان کے ناول ترک معاشرے کے عکاس ہیں۔ ترکی کا علاقہ تاریخی اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان تنازعات کا محور رہا ہے۔ اسی طرح ماڈرن ازم اور سیکولرازم بھی ان کے ناولوں کے اہم موضوعات میں شامل ہیں۔ 
اکتوبر 2006ءکو اورہان پاموک کو ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں  نوبل انعام سے نوازا گیا۔ سویڈش اکیڈمی نے اورہان پاموک کے لئے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کیا کہ ”اپنی ذات کی تلاش کے سفر میں انہوں تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ کے لئے نئی علامتیں دریافت کی ہیں۔“ وہ کہتے ہیں کہ ”میری کتابیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مشرق اور مغرب ایک دوسرے کے قریب آر ہے ہیں۔ خواہ امن ہو یا انارکی یہ عمل جاری ہے۔ میرے خیال میں مشرق اور مغرب یا اسلام اور یورپ کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہئے۔ میری تخلیقات کا بنیادی موضوع یہی ہے۔“ نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل وہ ترکی میں خاصے متنازعہ رہے۔ جس کی وجہ 2005ءمیں ترکی کے حکام نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی میں سینکڑوں آرمینیائی کے قتل عام کا ذکر کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ اورہان پاموک کے خلاف ترکی کے حکام نے تضحیکِ ریاست کا الزام لگایا تھا۔ پاموک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ان کے ملک میں تیس ہزار کرد اور ایک ملین آرمینیائی باشندوں کا قتل عام ہوا تھا لیکن ان کے علاوہ اس بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ 

ترکی کے قانون کے مطابق کسی کے لیے بھی ترکی کی ریاست اور قومی اسمبلی کی توہین کرنا غیر قانونی ہے۔اورہان پاموک کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔ لیکن بعدازاں شدید بین الاقوامی تنقید کے پیش نظر ان کے خلاف یہ الزامات ترک کر دیے گئے۔اورہان پاموک کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے آرمینیائی قتل عام کے بارے میں بیان کا مقصد آزادیءاظہار کے مسائل پر توجہ دلوانا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو انٹریو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”میں ایک ادیب ہوں۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ حکومت کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ایک عام آدمی کا تطقہ نظر بیان کرتا ہوں۔ ایک عام آدمی ہی دوسروں کی تکلیف اور مشکلات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ تہذیبوں کے مابین پائے جانے والے تنازعات کا حل آسان نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ بےوقوف ہوگا۔ میرے خیال میں ادب کے ذریعے ہی ہم ایسی صورتحال کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے مکالمے کی شکل میں۔ یہی عناصر ایک ناول میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اور اسی قسم کے سیاسی ناول آج کے دور میں مقبول ہیں۔“ 



Monday, June 7, 2010

Harold Pinter

ہیرلڈ پنٹر

عہد ساز ڈرامہ نگار اور ادیب کا فن و شخصیت



ہیرلڈ پنٹرایک عہد کا نام ہے۔ جس نے ڈرامہ نویسی،سکرین پلے رائیٹنگ اور تھیٹرہدایت کاری میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ شاعری اور سیاسی تجزیہ نگاری میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں تنقید نگاروں نے لکھاہے کہ ٴ یہ پنٹر کی قابلیت اور فن کا اظہار ہی تھا کہ اس نے اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی تھیٹر میں ٴپنٹر سیکٴ کی اصطلاح کا اضافہ کیاٴ۔ وہ موجودہ صدی کے عظیم ترین ڈرامہ نگار سمجھے جاتے ہیں۔ہیرلڈ پنٹر نے 1950ئ کی دہائی میں اپنے تھیٹر کیریئر کا آغاز کیا تھا۔آغاز میں انہوں نے ڈیوڈ برون کے نام سے اس فیلڈ میں قدم رکھا اور اداکاری کے ساتھ منسلک رہے۔ بعدازاں انہوں نے تھیٹر کے لئے اپنی زندگی مکمل طور پر وقف کر دی ۔ انہوں  نے 29سٹیج ڈرامے، 26 سکرین پلے اور ٹی وی اور ویڈیو ڈرامے کے علاوہ شاعری،افسانہ نگاروں اور مضامین بھی لکھے۔ ٴدی برتھ ڈے پارٹیٴ۔ٴدی کیئر ٹیکرٴ، ٴدی ہوم کمنگٴ اور ٴبیٹرئیلٴ ان کی بہترین تحریریں شمار کی جاتی ہیں۔ انہوں نے پچاس سے زائد سٹیج، ٹی وی اور ریڈیو ڈراموں کی ہدایات بھی دیں۔ 
ہیرلڈ پنٹر نے اپنے ڈراموں میں موجودہ روش سے ہٹ کر اپنے کرداروں اور ڈراموں کی کہانیوں کا تانا بانا بنا ۔ ان کے ڈراموں کا محور انسانی سوچ کے منفی اور مثبت پہلو، معاشرتی ناانصافیاں، جنس پرستی، معاشرتی تفریق اور انسان کی آگے بڑھنے کی جستجو میں خودغرضی کی حد تک چلے جانا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیرلڈ پنٹر کا طرہ امتیاز ان کے ڈرامے کا انداز تھا۔ انہوں نے دو کرداروں کے مابین مکالموں میں خاموشی اور خاص وقفہ دیا،مزاح ، خوف اور دہشت کو بھی بطور علامات استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی کاوشوں میں انسانی شناخت، معاشرتی دبائو، زبان اور قسمت جیسے متوع اور منفرد موضوعات کوابھارا۔  1980ئ  کی دہائی کے بعد وہ سیاسی طور پر خاصے سرگرم ہوگئے اور کئی سیاسی ڈرامے لکھے جنہیں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔



 ہیرلڈ پنٹر کا تعلق انگلینڈ کے ایک درمیانے طبقے کے یہودی گھرانے سے تھا۔ وہ 10اکتوبر 1930ئ کوہیکنی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جیک پنٹر خواتین کے ملبوسا ت کی سلائی کے پیشے سے منسلک تھے ۔اپنی والدہ فرانسس کے بارے میں ہیرلڈ پنٹر نے اپنے ایک خطاب میںبتایا کہ ٴوہ ہر وقت صاف ستھرا لباس پہنتی تھیں اور بہت مزیدار کھانا پکاتی تھیںٴٴ۔ہیرلڈ پنٹر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ہیکنی ڈائونز سکول اور لندن گرامر سکول سے حاصل کی۔ وہ1944ئ سے 1948ئ تک ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے۔ اس دوران ان کی دوستی اپنے انگریزی کے استاد جوزف بیریئرلی سے ہوئی  جنہوں نے انگریزی زبان کے حوالے سے ان کی بھرپور رہنمائی کی۔ ہیرلڈ پنٹر نے سکول کے میگزین کے لئے مضامین بھی لکھے اور سکول ڈراموں میںاداکاری بھی کی۔ اس دوران  فرانز کافکا اور ارنسٹ ہیمنگ وے  اس کے پسندیدہ ادیب تھے۔ 1947ئ اور1948ئ میں انہوں اپنے استاد بیریئرلی کی پروڈکشن اور ہدایات میں رومیوں اور میکبتھ کے کردار بھی ادا کئے۔

ادب کے علاوہ پنٹر کا پسندیدہ مشغلہ کرکٹ کا کھیل بھی تھا۔ نوجوانی کے دور میں اس نے بیشتر وقت کرکٹ کھیلتے ہوئے گزارا۔ 1971ئ میںایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ٴٴمیری زندگی کا ایک دور وہ بھی تھا جب میں ہر وقت کرکٹ کو اپنے ذہن میں بٹھائے رکھا کرتا تھا۔ہر وقت یہ کھیل کھیلتا، دیکھتا اور اس کے بارے میں پڑھا کرتا تھاٴٴ۔ ہیرلڈ پنٹر اپنی سرگزشت میں اپنے خاندان، خواتین سے عشق، شراب نوشی ا ور لکھنے پڑھنے سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔  ہیرلڈ پنٹر نے لندن میں رائل اکیڈمی اور ڈرامیٹک آرٹس سے بھی تعلیم حاصل کی۔ لیکن یہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ اس کے لئے خوشگوار نہ رہا۔ 1949ئ کو انہیں نیشنل سروس کے لیے بلایا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس بنا پر ان پر عدالت نے 30پائونڈ کا جرمانہ کیا ۔ یہ جرمانہ ان کے والد نے ادا کیا۔
 
1950ئ کی دہائی میں انہوں نے شاعری کا بھی آغاز کیا جو مختلف جرائد میں شائع ہوتی رہی۔ چند برس بعد ہیرلڈ پنٹر نے  ڈیوڈ برون کے نام سے باقاعدہ طور پر ڈرامہ نویسی کا آغاز کیا۔ اس کا پہلا ڈرامہ ٴدی رومٴ تھا۔ جو انہوں نے برسٹل یونیورسٹی کے ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ کے لئے لکھا تھا۔ 1959ئ میں ٴاے سلائیٹ آچےٴ ان کی ریڈیو کے لئے پہلی تخلیق تھا۔ ہیرلڈ پنٹر کا پہلا مکمل سٹیج ڈرامہ ٴدی برتھ ڈے پارٹی ٴ تھا جسے 1957ئ میں پہلی بار پیش کیا گیا۔ لیکن اس کھیل کا مایوس کن حد تک رد عمل سامنے آیا۔ یہ ڈرامہ بنیادی طور پر فرانز کافکا کے سٹائل میں تھا۔ ایک عام آدمی جسے چند اجنبی افراد ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ لیکن یہ بات منظر عام پر نہیں آتی کی وہ ایسا کیوں کر رہے ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ تنقید نگاروں کی جانب سے اس ڈرامے کو حوصلہ افزا ئی بھی ملی۔ ہیرلڈ پنٹر کا اس حوالے کہنا ہے کہ ٴٴمیرے خیال میں ناقدین غیر ضروری  لوگ ہیں۔ ہمیں ناظرین کوآگاہ کرنے کے لئے ناقدین کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام دیکھیں اور اپنا تجزیہ خود کریںٴٴ۔

ہیرلڈ پنٹر نے ڈراموں میں زبان کو محض رابطے کے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ سادہ الفاظ کے ساتھ گہری بات کرنے کا فن وہ جانتے تھے۔ خاموشی کو ، محبت ،رغبت ،خوف اور غصے کی علامت کے طور پر بھی مختلف انداز میں استعمال کیا۔  مارٹن ایسلن ان کے ڈرامے ٴدی پیپلز وائونڈٴ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ٴپنٹر کے لکھے ہوئے مکالمے شاعری سے بھی زیادہ وزن اور ربط میں ہیںٴٴ۔ ٴدی برتھ ڈے پارٹیٴ کے بعد اس نے ٴدی ڈمب ویٹرٴ پیش کیا جس سے اس کا شمار جدید روایت کے حامل ادیبوں میں کیا جانے لگا۔ بعدازاں اس کے ڈراموں ٴدی کولیکشنٴ۔ ٴدی ڈرافسٴ اور ٴدی لورزٴ نے بھی ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ہیرلڈ پنٹر کے آغاز کے کام میں سب سے اہم ٴدی ہوم کمنگٴ کو سمجھا جاتا ہے۔ اس ڈرامہ کو ٴٹونی ایوارڈٴ، وائیٹ بریڈ اینگلو امریکن ایوارڈٴ اور ٴنیو یارک ڈرامہ کریٹیکس سرکل ایوارڈٴ دیا گیا۔ یہ ایک نوجوان ٹیڈی کی کہانی تھی جو امریکہ میں زیر تعلیم ہوتا ہے۔ وہاں شادی کے بعد وہ اپنے خاندان سے ملنے کے لئے لندن آتا ہے۔ اس کے خاندان کے تمام افراد مرد ہیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ٹیڈی واپس امریکہ چلا جاتا ہے لیکن اس کی بیوی رتھ اس کے گھر میں رہتی ہے جسے جنسی طورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی قسم کے موضوعات اس نے ٴلینڈ سکیپ اینڈ سائیلنسٴ اور ٴاولڈ ٹائمزٴ میں بھی پیش کئے ہیں۔ پیرلڈ پنٹر کا ٴدی ہوم کمنگٴ کے بارے میں کہنا تھا کہ ٴاس ڈرامے میں کوئی شخص زیادہ دیز تک کمرے میں نہیں رکتا تھا۔ دروازہ کھلتا بند ہوتا رہتا اور کردار آتے جاتے رہتےٴٴ۔

 ہیرلڈ پنٹر نے کئی فلموں کے سکرین پلے بھی لکھے جن میں ٴدی سرونٹٴ، ٴدی ایکسیڈنٹٴ۔ ٴدی گو بٹوینٴ۔ ٴبیٹرئیلٴ۔ ٴٹرٹل ڈائیریٴ۔ ٴری یونینٴ اور کافکا کے ناول ٴٹرائلٴ کا سکرین پلے شامل ہیں۔ 1990ئ کی دہائی میں ہیرلڈ پنٹر نے سکرین پلے رائیٹنگ سے زیادہ ہدایت کاری کی جانب توجہ دینا شروع کر دی۔


ہیرلڈ پنٹر کے ادبی سفر میں 1973ئ میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔  چلی کے صدر الانڈے کا تختہ الٹنے کے واقعہ کا ان پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے بطور سماجی کارکن عوام کے حقوق کی آزادی کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ 1999ئ میں انہوں نے کوسوو کی جنگ کے حوالے سے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے نیٹو افواج کی مداخلت کی بھی مخالفت کی اور انہیں  اس ملک میں خوف، دہشت اور تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔ ہیرلڈ پینٹر ایک سیاسی سوچ کی حامل شخصیت تھے اور زندگی کے آخری برسوں میں وہ اپنی سیاسی تحریروں کے وجہ سے پہچانے جانے لگے۔ہیرلڈ پینٹر نے2003ئ میں عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ 13اکتوبر 2005ئ کو انہیں ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے بارے میں سویڈش اکیڈمی نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ٴٴہیرلڈ پنٹرàوہ جس نے اپنے ڈراموں میں  روز مرہ کی بات چیت میں دانائی کے ساتھ ظلم کی تاریک کمروں کی منظر نگاری کیٴ۔  انہوں نے نوبل پرائز تقریب میں اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ صدر بش اور ٹونی بلیئر پر عالمی عدالت انصاف میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔ ہیرلڈ پینٹر نے کہا تھا کہ بیشتر سیاست دان طاقت پر اپنے کنٹرول کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں، سچائی میں نہیںٴ۔فروری2005ئ میں ہیرلڈ پنٹر نے ایک انٹرویو کے دوران سکرین پلے رائیٹنگ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٴمیں نے 29 ڈرامے لکھے ہیں۔ کیا یہ کافی نہیں؟ ٴ اس موقع پر انہوں نے عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ اب وہ اپنی تمام تر توانائی سیاست کے حوالے سے خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈرامہ نویسی کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کرنے والا یہ ادیب 78برس کی عمر میں25دسمبر 2008ئ کواس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ بلاشبہ اس کے تخلیق کئے ہوئے کردار تادیر دیکھنے اور پڑھنے والوں کے اذہان پرنقش رہیں گے۔



Sunday, June 6, 2010

Palestine!

فلسطینی شاعر سمیع القاسم کی ایک نظم



















نہیں سلاخوں کے بس میں مجھ کو ہلاک کرنا

فصیلِ زنداں نہ روک پائے گی راہ میری
 
فضول ہے یہ شبِ سیہ کی تباہ کاری
 
کہ میرے خوں میں چمکتے دن کی نفیریاں ہیں

نظر میں اپنے ہی رنگ چھائے ہیں

اور ہونٹوں پہ جو صدا ہے وہ حرف جاں ہے

گئے ہوں کی عزیز روحو


کبھی تو برزخ کی سرحدوں سے نکل کے آ

کبھی تو میرے زفاف کی شب میں مجھ کو دیکھو

کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے فنا کی شب میں

جبین اپنی بلند رکھی

کبھی تو دیکھو کہ کیسے میں نے
 
سپیدئہ غم میں جانے والوں کی مغفرت کی دعائیں مانگیں 

مغنیوں کی صدائیں راتوں میں گونجتی ہیں 

لرز رہے ہیں تمام سازوں کے تار جیسے
 
کبھی نہ سوئیں گے اہل نغمہ

مرے وطن، اے متاع ہستی۔۔۔ کبھی تو سن لے

کہ ذرا ذرہ تری سماعت کا منتظر ہے

قبول کرلے ہمارا نغمہ

جو پھول بن کر نواحِ زنداں کی شور مٹی میں کھل اٹھاہے

بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں
 
اور ایک بے باک قہقہہ ہے یہ گیت ان پر
 
جو اس کی بندش کے مدعی ہیں

بہت بڑی ہیں قفس نشینوں کی داستانیں

میں ان کے آخر کے ظلم صفحوں کو ایک اک کر کے پھاڑتا ہوں

کبھی کبھی جب مری بصیرت شکست کھاتی ہے
 
اور سوچیں، جہت بھلا کر بھٹکنے لگتی ہیں،
 
میری آنکھوں میں کوندجاتا ہے اپنے والد کا وہ تبسم
 
جو موت لمحے میں اس کے چہرے پہ ضو فگن تھا

دکھائی دیتے ہیں قاتلوں کے سیاہ چہرے
 
جو خوف ودہشت کے سرد جالے میں کانپتے ہیں

مجھے قفس کے محافظوں سے خطرہی کیا ہے

کہ ان کے بس میں نہ گیت میرے نہ پھول میرے،

نہ میری چاہت
 
مجھے قفس کے محافظوں سے خطر ہی کیا ہے!

کہ دستر س میں نہیں ہیں ان کی

وہ کنجیاں، جن سے میری جیبیں بھری ہوئی ہیں

مجھے کسی عارضے کا ڈر ہے

نہ ان فیصلوں میں بربریت کے شاہکاروں کاخوف کوئی

کہ جب بھی چاہوں

نئی مسرت سے پرزمینوں کی سرخ مٹی میں منہ چھپانا

ہے میرے بس میں

نہیں ہے کہ کچھ بھی سلاک زنداں کی دسترس میں

کہ میری ساری حیات لمحہ ہے۔۔۔ ایک لمحہ

زمان چاہت کے لاکھ قرنوں میں ایک لمحہ 

یہ قید میری ، مرے لیے ہے فقط تماشا

قضا ہے جس طرح کھیل کوئی