Monday, June 14, 2010

J.M.Coetzee


جے۔ ایم۔ کوئٹسی

جنوبی افریقہ کے نوبل انعام یافتہ ادیب کا زندگی نامہ



نوبل انعام یافتہ ادیب جان میکسویل کوئٹسی نے اپنی تحریروں کے ذریعے تشدد،تعصبات، برداشت اور تحمل جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ وہ اپنی سر زمین جنوبی افریقہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”وہاں کے لوگ زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ان کے ارد گرد کی دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ تبدیل ہوتا ہوا یہ منظر نامہ ان کی نسل کی بقا کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔“ جذباتی احساسات کا اظہار اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا انسان جان میکسویل کوئٹسی کے فن کے بنیادی موضوعات ہیں۔ نسلی فسادات ، اقدار کی جنگ، دوسروں پر تسلط کی کوششیں، جنوبی افریقہ کی قدیم قبائلی رسومات، ظلم اور جہالت کی داستانیں ان کے ناولوں کا اہم حصہ ہیں۔ انہوں نے انسانی نفسیات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور معاشرتی اور سیاسی سطح پر انسان کی نفسیات کا نہایت جامع انداز میں نقشہ کھینچا ہے۔ جنوبی افریقہ کے دیگر ادیبوں کے بر عکس کوئٹسی نے عوامی اور نجی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور ذاتی زندگیوں کو ایک ہی سطح پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے شہرہ آفاق ناولوں میں ’ویٹنگ فار دی باربیرین“۔”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“۔”دی ماسٹر آف پیٹرسبرگ“اور”ڈسگریس“شامل ہیں۔ جبکہ ان کی دوبائیوگرافی کی کتابیں ”بوائے ہُڈ“ اور ”یوتھ“ شائع ہو چکی ہیں۔

جان میکسویل کوئٹسی  9فروری 1940ءکو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاﺅن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے وکیل اور والدہ سکول ٹیچر تھیں۔ ان کے آباءو اجداد نے سترہویں صدی میں ہالینڈ سے اس خطے میں ہجرت کی تھی۔ کوئٹسی کا پیدائشی نام جان کوئٹسی تھا لیکن نوجوانی میں انہوں نے اپنے نام میں میکسویل کا اضافہ کر لیا تھا۔ جان کوئٹسی نے اپنے بچپن کا بیشتر حصہ کیپ ٹاﺅن میں بسر کیا۔ جس کا احوال اس کی کتاب ”بوائے ہُڈ“ میں ملتا ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف کالج کیپ ٹاﺅن سے حاصل کی۔ بعدازاں یونیورسٹی آف کیپ ٹاﺅن سے انگریزی اور ریاضی کے مضامین کا انتخاب کیا۔ انہوں نے 1960ءمیں انگریزی میں آنرز اور 1961ءمیں ریاضی میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ آئی ٹی کے شعبہ سے منسلک ہو گئے ۔ بعدازاں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے آبائی شہر واپس آگئے۔ اور یونیورسٹی آف کیپ ٹاﺅن میں بطور لیکچرار 2791ءسے 1983ءکے عرصہ کے دوران تعینات رہے۔ 1984ءمیں جان کوئٹسی امریکہ کی سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے۔ اس دوران وہ جان ہوپکنز یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 

جان میکسویل کوئٹسی کی شادی 1963ءمیں ہوئی جو کہ 1980ءتک قائم رہی۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔ لیکن ان کا بیٹا تیئس برس کی عمر میں کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ جان کوئٹسی کی اپنی بیوی سے علیحدگی اور طلاق کی وجہ ان کے دوستوں نے کوئٹسی کی تنہا پسند طبیعت کو قرار دیا۔ ان کی تنہا پسندی اس وقت اور بھی کھل کر سامنے آئی جب انہیں بُکر پرائز کی تقریب کے لئے لندن مدعو کیا گیا۔ 1984ءمیں ان کی کتاب ”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“ اور 1999ءمیں ’ڈسگریس“ کو بھی بُکر پرائز سے نوازا گیا لیکن وہ انعامی تقریب میںشریک نہ ہوئے۔

 ادیب ریان مالان ان کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”وہ نہایت منظم اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے، سگریٹ نوشی نہیں کرتے اور گوشت بھی نہیں کھانے۔ وہ اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لےے کئی کئی میل سائیکل چلاتے ہیں اور روز صبح کم از کم ایک گھنٹہ اپنے لکھنے کی میز پر گزارتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی جس نے ان کے ساتھ ایک دہائی سے زائد کام کیا ان کو صرف ایک مرتبہ ہنستے ہوئے دیکھا۔ جبکہ ڈنر کی تقریبات میں وہ ایک لفظ بھی بولنا پسند نہیں کرتے۔“ البتہ جان میکسویل کوئٹسی کی تنہائی پسندی ان کی شہرت میں کبھی رکاوٹ کا سبب نہیں بنی۔ آج بھی ان کی کتابیں دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں ۔ بطور ادیب جان کوئٹسی کا الہام ان کی اپنی ذات اور جنوبی افریقہ میں کئے گئے مشاہدات و تجربات ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تعصبیت کے دور میں بھی انہوں نے بطور ایک سفید فارم ادیب کی حیثیت سے اس کی مخالفت کی۔ ان کی تحریریں جنوبی افریقہ کے دیگر ادیبوں سے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ جان کوئٹسی یورپ اور امریکہ کے ما بعداز جدیدیت کے فلسفے کے قائل ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ کے کئی ادیبوں سے متاثر ہیں۔ جنہوں نے سامراجی کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ ان کی تحریروں میں ان کی ذاتی زندگی، مشاہدات اور عقائد کے بارے میں بھی بے پناہ مواد ملتا ہے۔ وہ اپنی سرگزست حیات”بوائے ہُڈ:سینز فرام پروونشل لائف“ میں خود کو ’افریکانر‘(افریقی زبان بولنے والا ولندیزی نسل کا باشندہ) قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی اور دیگر ناولوں میں بھی نسلی تعصبات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ 

اپنے پہلے ناول’ڈسک لینڈز‘ میں جان میکسویل کوئٹسی نے دو کہانیاں بیان کیں ہیں۔جن میں ویت نام میں امریکہ کا کردار اور جنوبی افریقہ میں جیکبس کوئٹسی نامی ایک شخص نئے جہانوں کی تلاش کی سفر شامل ہیں۔ یہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھیں لیکن انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں اسے بیان کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جارحیت کے ذریعے کس طرح کسی علاقے اور قوم پر اپنے تسلط قائم کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک ثقافت دوسری ثقافتوں کے ساتھ بھی ملاپ کا سبب بنتی ہے۔ انہیں بُوکر پرائز ان کے ناول ”دی لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے“ پر دیا گیا۔ اس ناول میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کیپ ٹاﺅن کی منظر نگاری کی ہے۔ اس ناول انہوں نے کیپ ٹاﺅن شہر میں نسلی تعصبات اور اس دوران ہونے والی خونریزی کی بنیاد پر کہانی بیان کی ہے۔ یہ ناول ایک نوجوان مالی مائیکل کے کی داستان ہے۔ جو خونزیری کے دنوں میں اپنے دم توڑتی ہوئی ماں کو فارم ہاﺅس لے کر جارہا ہوتا ہے۔ اس سفر کے دوران اس کی ماں دم توڑ دیتی ہے اور مائیکل اس فارم میں اپنی ماں کی راکھ کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ وہ اس فارم ہاﺅس میں تنہائی کی زندگی پر امن طریقے سے گزار رہا ہوتا ہے کہ اسے جنگجو گوریلوں کی امداد کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ کوئٹسی نے پورے ناول میں نسلی فسادات کو مرکزی خیال بنانے کی بجائے انسانیت کی قدرو اہمیت اور انسانی رویوں کو باریک بینی سے بیان کیا ہے۔

ان کا آخری ناول ’ڈسگریس‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کو بھی بُکر پرائز کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس ناول میں کوئٹسی نے جنوبی افریقہ کے ثقافت اور معاشرتی روایات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ناول ایک جنوبی افریقین پروفیسر ڈیوڈ کی کہانی ہے۔اس کی جوان بیٹی لوسی ایک فارم ہاﺅس میں رہتی ہے، پروفیسر اسے ملنے جاتا ہے اور اس دوران دو آدمی اور ایک لڑکے پر مشتمل گروہ اس کی بیٹی کی عصمت دری کر دیتا ہے۔ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد وہ پروفیسر اپنی بیٹی کے پڑوسی کے گھر ایک پارٹی میں اسی لڑکے کو دیکھتا ہے۔ وہ اس گھر کے مالک پیٹرس نے انصاف کا تقاضا کرتا ہے ۔لیکن پیٹرس اس کے سامنے شرط رکھتا ہے کہ اگر اس کی بیٹی اس لڑکے کے ساتھ شادی کر لے تو آئندہ اس پر کسی قسم کا حملہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ ناول بنیادی طور پر جنوفی افریقہ کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ جائیداد، جرائم، ریپ، نسلی امتیاز اور پولیس کی تحفظ نہ ہونا اور اس ناول میں بتائے گئے تمام خیالات آج کے جدید دور میں بھی جنوبی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ 
جان میکسویل کوئٹسی کی تحریروں کو کسی حد تک یکسانیت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے ناولوں کا مرکز ایک کردار ہوتا ہے اور اسی کی نفسیات کے اردگرد وہ کہانی کا تانا بانا بنتے ہیں۔ ان کی ناول میں کوئی واضح پیغام بھی نہیں ملتا البتہ وہ منظرنگاری اور کردارنگاری سے ایسا ماحول تخلیق کر دیتے ہیں کہ قاری کو بذات خود نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 


جان میکسویل کوئٹسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں مسائل کا حل پیش نہیں کرتے بلکہ مسائل کی نشاہدہی کرتے ہیں۔ اب یہ قاری کا فرض ہے کہ وہ ان مسائل کا حل کس انداز میں نکالتا ہے اور کیا سوچتا ہے۔ 

اکتوبر 2003ءکو نوبل اکیڈمی کی جانب سے انہیں ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ وہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے چوتھے ادیب ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان کے بارے میں نوبل اکیڈمی کا کہنا تھا کہ ”ان کے تحریروں کا مرکزی خیال جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے نسلی امتیازانہ رویے ہیں، اور ان کے خیال میں ایسی صورتحال دنیا میں کہیں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ “ نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے اکیڈمی نے اپنے علامیے میں ان کے بارے میں لکھا کہ ”نہایت عمدہ مرکبات، جاندار مکالمے اور حیرت انگیز بیانیہ انداز ان کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ انسانی ذہن کی کمزوری اور شکست کو شعلہ کی مانند بیان کرتے ہیں۔“ ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ”ہماری تاریخ میں عام لوگ ہمارے حکمران رہے اور انہوں نے ہمیشہ عامیانہ فیصلے کئے۔ میرے خیال میں گزشتہ چالیس برسوں میں اخلاقیات کے حوالے سے بحث میں جنوبی افریقہ اہم مقام رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment