Thursday, June 24, 2010

Child Labor


محنت کش بچے.... معاش کی بھٹی کا ایندھن


چائلڈ لیبر ڈے کے حوالے سے فیچر


بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں۔معصوم بچے جو کسی بھی سماج میں ایک پھول کی حیثیت رکھتے ہیں ،جو معاشرے کی ایک انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ،جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے لیکن جب حالات سے مجبور ہو کران بچوں کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں محنت مشقت پر مجبور کر دیا جائے تو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پا رہا ہوتا ہے۔ یہ بے آسرا وبے یارومدد گار بچے آج اس نظام میں اپنا پیٹ پالنے اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے سڑکوں پر اپنا رزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور اُسی رزق کو تلاش کرتے کرتے کب وہ اس سرمائے کی منڈی میں داخل ہوجاتے ہیں اور چائلڈ لیبر کا شکار ہوجاتے ہیں خود اُن معصوم بچوں کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے اور پھر ناسور بن کر سماج کا چہرہ داغ دار اور بدصورت کردیتا ہے۔ معاشی بدحالی، بنیادی سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ملک میں اس المیے کو جنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پوری دنیا اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میںبچوں سے محنت مشقت کروانے کی روایت موجود ہے اور اس کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی ہے۔ امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگا دیں تاکہ ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں۔ سکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں، ہوٹلوں، بس اڈوں، ورکشاپوں اور دیگر ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ محنت مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہو رہا ہے۔ جو کہ اس قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
’چائلڈ لیبر‘ سے مراد نوعمر اور کم سن بچوں سے محنت مشقت اور ملازمت کرانا ہے۔ یعنی بچے کو اس کے حق تعلیم و تفریح سے دور کر کے اس کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیا جائے۔ چائلڈ لیبر بچوں کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں چائلڈ لیبر کی شرح بہت زیادہ ہے اور عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) نے اس بارے میں اپنی رپورٹ ان الفاظ میں مرتب کی ہے ”ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ پھر ان بچوں میں سے تقریبا تین چوتھائی (سترہ کروڑ دس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی نیز خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔
چائلڈ لیبر کی تشریح اقوام متحدہ کا ادارہ انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ کچھ ان لفظوں میں کرتا ہے”وہ بچے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں وہ تمام بچے چائلڈ لیبرمیں شامل ہیں“۔ اس قسم کے بچے آج پوری دنیا میں ہمیں مختلف طریقوں سے اپنا پیٹ پالتے نظر آتے ہیں اگر ہم چائلڈ لیبر کا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو لاطینی امریکہ ،افریقہ اور ایشیا میں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر کا شکارنظر آتے ہیں،کچھ لوگوں کے مطابق ایشیا کے کئی ممالک کے اندر ایک سے دس افرادی قوت چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے ،جن میں بھارت میں دس سے چودہ سال کی عمر کے بچے جو مختلف قسم کی محنت مزدوریاںکرکے ایک دن کی روٹی کھا تے ہیں اُن کی تعداد تقریبا چار کروڑ چالیس لاکھ ہے ، پاکستان میں ایسے بچوں کی تعد اد تقریبا اسی لاکھ سے ایک کروڑ تک ہے ،بنگلہ دیش میں اسی لاکھ سے ایک کروڑ بیس لاکھ تک ،برازیل میں ستر لاکھ جبکہ ایک کروڑ بیس لاکھ تک بچے نائجیریا میں محنت و مشقت کرکے روزانہ اپنا پیٹ پالتے ہیں اور زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چائلڈلیبر کا افریقی ممالک میں تناسب سب سے زیادہ ہے ۔ ہیومین رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ” برکینا فاسو، چاڈ، ٹوگو، سیرالیون، نیجر، گھانا، کوسٹاریکا، سنٹرل افریقن ریپبلک میں پچاس فیصد(%50) سے زیادہ بچے چائلڈلیبر کا شکار ہیں۔ ان سب ممالک میں سے نائیجر میں یہ حد چھیاسٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کے وجہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے مگر زیادہ افراد کی کفالت ذمہ ہوتی ہے تو ایسے میں یہ والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے۔ چائلڈ لیبر عام طور پر غریب اور پسماندہ ممالک میں ہے۔ حکومتی سطح پر ان مسئلے کی جانب عدم دلچسپی اس مسئلے کا تیزی سے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے۔
12 جون کو محنت کش بچوںعالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا تقاضا ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس کنونشن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 20نومبر1989ءکو منظور کیا تھا۔ پاکستان 1990ءمیں اس کنونشن کا حصہ بنا تھا۔ اس کے آرٹیکل 32کے مطابق ”ریاست بچوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کرے گی اور انہیں ایسا کام کرنے سے روکا جائے گا جو ان کی تعلیمی معمولات کو متاثر کرے یا وہ بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے مضر ہو۔“ 2001-02ءکے دوران حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز (لیبر ڈیپارٹمنٹ، ٹریڈ یونینز، مالکان اور غیر سرکاری تنظیموں) سے مشاورت کی تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن 182کے تحت بچوں کے لئے کون سے پیشے یا کام نامناسب ہیں۔ اس مشاورت سے ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہوا اور درج ذیل پیشوں اور کاموں کی فہرست تیار ہوئی جو بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بہتر نہیں ہیں ۔ (1کان کنی(2 طاقت ورمشینوں پر کام کرنا (3بجلی کی ایسی تاروں پر کام کرنا جن میں بچاس واٹ سے زیادہ کرنٹ ہو (4چمڑے کی صفائی سے متعلقہ تمام کام (5کیڑے مار ادویات کو ملایا اور ان کا استعمال (6شیشہ سازی (7کیمیکل انڈسٹری (8کوئلے کی صنعت (9 سیمنٹ انڈسٹری (10آتش بازی کے سامان کی تیاری اور فروخت (11ایسی جگہ پر کام کرنا جہاں سیلنڈروں میں سی این جی یا ایل پی جی بھری جاتی ہے (12شیشے اور دھات کو پگھلانے والی بھٹیاں (13کپڑے کو رنگنے، پرنٹ کرنے اور پیکنگ کا عمل (14سیوریج پائپ لائنوں اور اس سے منسلک کام (15پتھروں کو توڑنے کا عمل(16 سامان اٹھانا یا ٹرکوں پر لوڈ کرنا(پندرہ کلوگرام سے زیادہ) (17صبح دس سے شام آٹھ بجے تک ہوٹلوں میں کام کرنا(18 قالین بافی (19زمین سے دو میٹر کی بلندی پر کوئی بھی کام کرنا(20 کوڑا کرکٹ سے پلاسٹک، کاغذ یا ہسپتال سے فاضل سامان چننا (21تمباکو کی صنعت سے وابستگی (22ماہی گیری (23بھیڑوں کی کھالوں سے اون کا حصول کرنا (24آلات جراحی کی صنعت (25بحری جہاروں کو توڑنا اور (26چوڑیاں بنانے والی بھٹیاں اس فہرست میں کئی غیر رسمی پیشے شامل نہیں ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ان میں زراعت، بھٹہ خشت، گھریلو ملازمت، گھریلو صنعتیں، دوکانوں اور ورکشاپوں پر کام کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور خود اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مزدور بچوں پر آخری سروے 1996ءمیں ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں 33 لاکھ مزدور بچے ہیں۔ جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے۔ مزدور بچوں کا اسی فیصد تو غیر رسمی شعبہ میں ہیں۔ جیسے گھروں میں اورکھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں ہے۔
سماجی بہبود کے اعدادوشمار کے مطابق باقاعدہ شعبوں میں کام کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سے بیس لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری سے متعلق جو قوانین ہیں ان میں بچے کی تعریف میں ایسے نو عمر لوگ ہیں جن کی عمر ابھی پوری چودہ سال نہیں ہوئی جبکہ عالمی کنوینشنز میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ ملک میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور یہ سب بچے کسی وقت بھی نو عمر مزدور بن سکتے ہیں۔
جراحی کے آلات بنانے کے کارخانوں میں ہزاروں بچے مزدوری کرتے ہیں اور ملک ان کی محنت سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا ہے یہ بچے ریتی پر دھات کے گھسنے سے نکلنے والی دھاتی دھول کو بھی سانس کے ساتھ اندر لے کر جاتے ہیں جو ان کے کام کا بہت خطرناک پہلو ہے اسی طرح ڈینٹنگ پینٹنگ اور فرنیچر پالش کرنے والے بچوں کے پھیپھڑے بھی رنگ اور پالش میں موجود مختلف کیمیکلز سے متاثر ہوتے ہیں اور ٹی بی کا باعث بنتے ہیں۔ کم عمر بچوں کا اپنے والدین سے دور مستریوں کی نگرانی میں کام کرنا بھی بذات خود کئی مشکلات کا باعث بنتا ہے کیونکہ ان ورکشاپوں کے مالکان کا ان بچوں سے کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہوتا۔
ملک بھر میں بچے کوڑا اٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں جس میں وہ ہسپتالوں کا کوڑا بھی اٹھاتے ہیں۔ جس میں خطرناک بیماریوں میں استعمال ہونے والی پٹیاں، ٹیکے وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے اور بہت سے والدین اگر پیسوں کے لئے نہیں تو صرف اس لئے بچوں کو کام پر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ کوئی ہنر سیکھے گا کیونکہ حکومتی نظام تعلیم میں مستری، بڑھئی یا ٹیکنیشن اور اس طرح کے دوسرے ہنر نہیں سکھائے جاتے ہیں اور نہ ہی ایسے ہنر سکھانے والے ادارے موجود ہیں۔ تاہم غربت کے ساتھ کئی اور عوامل بھی اہم ہیں۔ مثلاّ قالین بافی کے صنعت میں بچوں کی بہبود کے لیے آئی ایل او کے منصوبہ پر کام کرنے والے اہلکار کے مطابق قالین بافی میں صرف بائیس فیصد بچے خاندان کی غربت کی وجہ سے تھے جبکہ علم کی طرف رغبت دلانے پر پینتالیس فیصد بچوں نے قالین بانی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر سکولوں کا رخ کر لیا۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات بچوں کی مزدوری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور بنیادی تعلیم سے بھی مزدور بچوں کے حالات میں بہتری آسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے 2005ءمیں اونٹ ریس میں بچوں کے استعمال پر پابندی لگائے جانے کے بعد وہاں سے تقریباّ سات سو بچے واپس پاکستان بھیجے گئے۔ گزشتہ اڑھائی سال کے دوران بچوں کی سمگلنگ میں ملوث چھ سو ملزمان کیخلاف مقدمات درج ہوئے جن میں سے صرف چونسٹھ افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔ 2002ءمیں ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا تھا جس کے تحت اس کاروبار میں ملوث افراد کو چودہ سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پاکستان سے بیرونی ممالک کو بچوں کی سمگلنگ 1989ءمیں شروع ہوئی اور ہنوز یہ دھندہ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی روک تھام کیلئے حکومت کو مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچوں سے مزدوری لینے کے کام میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور امید ہے کہ یہ غیر قانونی کام 2015ءتک دنیا کے تمام ممالک میں ختم ہو جائے گا۔ آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بجائے چائلڈلیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی۔ لہٰذا چائلڈلیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پرہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم، علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈلیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

بچوں کے حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم سپارک نے سال 2008ءمیں پاکستان میں بچوں کی حالت پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بچوں پر تشدد ، صحت و تعلیم ، اندرون ملک نقل مکانی ،بچوں سے مشقت ،بچوں لیے انصاف اور میڈیا کے ذریعے تشدد کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سال 2008ءمیں چائلڈ لیبر و ٹریفکنگ ، بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد ، قتل ، اغواءاور خودکشی کے مجموعی طور پر 6780 واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں 4251 لڑکے اور 2529 لڑکیاں شامل ہیں ۔ تشدد کے واقعات کے حوالے سے صوبہ پنجاب سر فہرست رہا جہاں یہ تعداد 3772 تھی ۔ سندھ 2412، سرحد 498 اور سب سے کم واقعات بلوچستان میں پیش آئے جہاں یہ تعداد 98 رہی ۔

اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بچپن اور لڑکپن کی لاپرواہ زندگی اور کھیل کود کی لذتوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو۔بغیر کسی فکر وفاقہ کے چین کی نیند سوئے اور سکون کے ساتھ خوشگوار انداز میں زندگی گزارے۔اس کے ساتھ ہی حصول تعلیم بھی اس کا بنیادی حق ہے کہ اس حق کی بناءپر ہی وہ اپنا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے۔ کمسن بچوں کو ان کے ان بنیادی حقوق سے محروم رکھنا اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ عام لوگوں کو بھی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچے جو اس قوم کے معمار ہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

No comments:

Post a Comment