Saturday, June 12, 2010

Seamus Heaney

بکھرتے رنگوں کا شاعر

آئرلینڈ کے نوبل انعام یافتہ شاعر شیمس ہینی کا زندگی نامہ




میں نے ہمیشہ لکھنے کے عمل کو خوشی اور ایک پوشیدہ انعام کے حصول کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ میرا اعتقاد ہے کہ جو کچھ لکھا جانا چاہئے وہ خوبخود لکھا جاتا ہے۔ “ یہ کلمات آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے شاعر شیمس ہینی کے ہیں۔ ان کا شمار موجودہ دور کے معتبر ترین شعراءمیں کیا جاتا ہے۔ شیمس ہینے نے آئرلینڈ کی دیہاتی زندگی، قدرتی مناظر، سیاسی و تاریخی صورتحال اور اپنی بچپن کے یادوں کو شاعری کے پیراہن میں پیش کیا ہے۔ انہیں 1995ءمیں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

شیمس ہینی 13اپریل 1939ءکو شمالی آئرلینڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کاشتکاری کے شعبہ سے منسلک تھے اور لگ بھگ پچاس ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ان کا خاندان شمالی آئرلینڈ میں موسبان کے قصبہ میں مقیم تھا۔ شیمس نو بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ والد کا تعلق کاشتکاری اور مویشی بانی سے ہونے کے باعث انہوں نے بھی ابتدا میں اسی پیشے کو اپنانے کا سوچا لیکن کبھی یہ پیشہ اختیار نہ کر سکے۔ ان کے والد پیٹرک ہینی کی وفات کے بعد شیمس ہینی نے اپنے چچاﺅں کی زیر سرپرستی بچپن گزارا۔ ان کی والدہ کا تعلق میکین خاندان سے تھا،یہ خاندان سرمایہ داری سے منسلک تھا۔ ہینی شیمس کے مطابق آئر لینڈ میں صنعتی انقلاب اور ان کے خاندان کے کشیدہ تعلقات نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پریشانیاں اور غم انہیں ورثے میں ملے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے والد خاموش طبع اور والدہ خاصی زبان دراز خاتون تھیں جس کے باعث اکثر ان کے والدین کے درمیان تلخ کلامی ہوتی تھی ۔اس قسم کی صورتحال میں وہ ذہنی کشمکش کا شکار رہتے جس کو انہوں نے شاعری کے روپ میں ڈھالا۔

شیمس ہینی نے اپنا بچن دیہات کے سرسبز و شاداب ماحول میں گزارا۔ ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے وہیں سے حاصل کی۔ انہوں نے کم عمری میں آئرلینڈ میں امریکی فوج کو مشقیں اور مارچ کرتے ہوئے بہت قریب سے بھی دیکھا۔ صوبہ نومینڈی صوبہ میں ان کے گھر کے قریب ہی فوجی اڈہ قائم تھا۔ اس عرصہ میںبھی وہ ذہنی انتشار کا شکار رہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو جدید معاشرے اور زمانہ جہالت کے درمیان کھڑا ہوا پاتے تھے۔ شیمس ہینی نے زندگی میں ایک مقام پر کبھی زیادہ عرصہ قیام نہیں کیا، ان کا خاندان مختلف مقامات پر منتقل ہوتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جائے پیدائش سے دور جاتے رہے۔ لیکن یہ فاصلہ صرف جسمانی طور پر تھا، دیہات کا عکس ہمیشہ سے ان کے ذہن پر منقش رہا۔

شیمس ہینی نے 12برس کی عمر میں کیتھولک بورڈنگ سکول سینٹ کولمبز کالج میں داخلہ لیا۔ جہاں کورس کی کتابوں کے ذریعے ان کی ملاقات ولیم شیکسپئر، چوسر، ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس سے ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاطینی زبان بھی سیکھی۔ یہ ادارہ ڈیری نامی شہر میں واقع تھا جو ان کے والد کے فارم ہاﺅس سے چالیس میل کے فاصلے پر قائم تھا۔1961ءمیں انہوں نے یونیورسٹی آف بیلفاسٹ سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں وہ سینٹ جوزف کالج میں بطور تربیتی استاد تعینات کر دیئے گئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہاں سے سینٹ تھامس اکیڈمی چلے گئے۔ سینٹ تھامس اکیڈمی میں بطور استاد انہوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا جہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر مائیکل میکلاورٹی نے ان کے اندر پوشیدہ شاعرانہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب شیمس ہینی کی شاعری ادبی جرائد کا حصہ بننا شروع ہوئی تھی۔ 1963ءمیں انہوں نے مختلف جرائد کے لئے مضامین نگاری کا آغاز بھی کر دیا۔ بیلفاسٹ یونیورسٹی میں بطور لیکچرر تعیناتی کے بعد انہوں نے طلباءکی ادبی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا اور نوجوان شاعروںکے لئے ایک باقاعدہ فورم کا قیام بھی عمل میںلائے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب 1965ءمیں ’اوور نائن ویوز‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ جبکہ 1966ءمیں ’ڈیتھ آف اے نیچرلسٹ‘ منظر عام ہر آئی۔ ان کتابوں کو بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی اور انہوں نے متعدد ایوارڈز حاصل کئے۔ 1969ءمیں ان کا دوسرا دیوان ’ڈور ان ٹو دی ڈارک‘ شائع ہوئی تھی۔


 شیمس ہینی کا الہام دیہات کی زندگی اور ان کا بچپن ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں آئر لینڈ کے دیہاتی زندگی کی منظر نگاری کی ہے۔ خاص طور پر آئرلینڈ کے شمالی علاقے ، جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ان کی شاعری آئر لینڈ کے دیہاتی علاقوں کی شاندار منظر کشی کرتی ہے۔ قدرتی مناظر اور دیہاتی زندگی کے ساتھ گہرا رابطہ ان کی شاعری میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف منظر نگاری کی ہے بلکہ انسانی نفسیات اور رویوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان علاقوں میں سماجی تفریق اور ذات پات کی بنا پر تقسیم بھی ان کی شاعری کا موضوع بنی رہی ہے۔ انہوں نے شاعری میں سیاست یا فوجی اقتدار کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا بلکہ اپنی یاد داشتوں کے ذریعے اپنے خیالات و احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کی تخلیقات کا کچھ حصہ تاریخی موضوعات کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں حاصل کیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی موضوعات بھی ان کی شاعری کا حصہ رہے ہیں جن میں ان کی ذاتی زندگی، خاندان، اپنے خاندان کے افراد کی کردارنگاری بھی شامل ہیں۔ وہ بذات خود کہتے ہیں کہ میری نظموں میں آپ کو میرے خاندان کے افراد کا عکس نظر آسکتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق نظم ’ڈگنگ‘ ان کے خاندانی پس منظر کی عکاسی کرتی ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں بچپن سے ہی بہت سارے پیشے منتخب کرنے کے مواقع ملے لیکن انہوں نے ادب کے ساتھ ناطہ قائم کرنے کو فوقیت دی۔ ان کے شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حواس خمسہ پر خوشگواراثرمرتب کرتی ہے۔ ان کی شاعری کے انتخابی مجموعوں ’دی ریٹل بیگ‘ اور ’دی سکول بیگ‘ کو برطانیہ کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ شیمس ہینی کی شاعری کو آئرلینڈ کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سراہا جاتا ہے۔ رابرٹ لویل ان کو ییٹس کے بعد آئرلینڈ کا سب سے اہم شاعر کہتے ہیں ۔

شیمس ہینی کی نظموں میں کسی حد تک ان کی سیاسی نظریات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اپنے شعری مجموعے ’ونٹرنگ آﺅٹ‘ میں انہوں نے آئر لینڈ میں خانہ جنگی کے دوران موت کے منہ میں چلے جانے والے نوجوانوں کے لئے غم کا اظہار کیا ہے۔ ان کے شعری مجموعوں ’نارتھ‘ اور ’فیلڈورک‘ میں انہوں نے شمالی آئرلینڈ کی سیاسی صورتحال کی منظر کشی ہے ۔ ان کے دیگر معروف شعری مجموعوں میں ’سٹیشن آئی لینڈ‘ ، ’دی ہا لنٹرن‘، ’سینگ تِھنگز‘ اور ’دی سپرچوئل لیول‘ شامل ہیں۔


No comments:

Post a Comment