ہیرلڈ پنٹر
عہد ساز ڈرامہ نگار اور ادیب کا فن و شخصیت
ہیرلڈ پنٹرایک عہد کا نام ہے۔ جس نے ڈرامہ نویسی،سکرین پلے رائیٹنگ اور تھیٹرہدایت کاری میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ شاعری اور سیاسی تجزیہ نگاری میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں تنقید نگاروں نے لکھاہے کہ ٴ یہ پنٹر کی قابلیت اور فن کا اظہار ہی تھا کہ اس نے اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی تھیٹر میں ٴپنٹر سیکٴ کی اصطلاح کا اضافہ کیاٴ۔ وہ موجودہ صدی کے عظیم ترین ڈرامہ نگار سمجھے جاتے ہیں۔ہیرلڈ پنٹر نے 1950ئ کی دہائی میں اپنے تھیٹر کیریئر کا آغاز کیا تھا۔آغاز میں انہوں نے ڈیوڈ برون کے نام سے اس فیلڈ میں قدم رکھا اور اداکاری کے ساتھ منسلک رہے۔ بعدازاں انہوں نے تھیٹر کے لئے اپنی زندگی مکمل طور پر وقف کر دی ۔ انہوں نے 29سٹیج ڈرامے، 26 سکرین پلے اور ٹی وی اور ویڈیو ڈرامے کے علاوہ شاعری،افسانہ نگاروں اور مضامین بھی لکھے۔ ٴدی برتھ ڈے پارٹیٴ۔ٴدی کیئر ٹیکرٴ، ٴدی ہوم کمنگٴ اور ٴبیٹرئیلٴ ان کی بہترین تحریریں شمار کی جاتی ہیں۔ انہوں نے پچاس سے زائد سٹیج، ٹی وی اور ریڈیو ڈراموں کی ہدایات بھی دیں۔
ہیرلڈ پنٹر نے اپنے ڈراموں میں موجودہ روش سے ہٹ کر اپنے کرداروں اور ڈراموں کی کہانیوں کا تانا بانا بنا ۔ ان کے ڈراموں کا محور انسانی سوچ کے منفی اور مثبت پہلو، معاشرتی ناانصافیاں، جنس پرستی، معاشرتی تفریق اور انسان کی آگے بڑھنے کی جستجو میں خودغرضی کی حد تک چلے جانا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیرلڈ پنٹر کا طرہ امتیاز ان کے ڈرامے کا انداز تھا۔ انہوں نے دو کرداروں کے مابین مکالموں میں خاموشی اور خاص وقفہ دیا،مزاح ، خوف اور دہشت کو بھی بطور علامات استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی کاوشوں میں انسانی شناخت، معاشرتی دبائو، زبان اور قسمت جیسے متوع اور منفرد موضوعات کوابھارا۔ 1980ئ کی دہائی کے بعد وہ سیاسی طور پر خاصے سرگرم ہوگئے اور کئی سیاسی ڈرامے لکھے جنہیں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
ہیرلڈ پنٹر کا تعلق انگلینڈ کے ایک درمیانے طبقے کے یہودی گھرانے سے تھا۔ وہ 10اکتوبر 1930ئ کوہیکنی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جیک پنٹر خواتین کے ملبوسا ت کی سلائی کے پیشے سے منسلک تھے ۔اپنی والدہ فرانسس کے بارے میں ہیرلڈ پنٹر نے اپنے ایک خطاب میںبتایا کہ ٴوہ ہر وقت صاف ستھرا لباس پہنتی تھیں اور بہت مزیدار کھانا پکاتی تھیںٴٴ۔ہیرلڈ پنٹر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ہیکنی ڈائونز سکول اور لندن گرامر سکول سے حاصل کی۔ وہ1944ئ سے 1948ئ تک ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے۔ اس دوران ان کی دوستی اپنے انگریزی کے استاد جوزف بیریئرلی سے ہوئی جنہوں نے انگریزی زبان کے حوالے سے ان کی بھرپور رہنمائی کی۔ ہیرلڈ پنٹر نے سکول کے میگزین کے لئے مضامین بھی لکھے اور سکول ڈراموں میںاداکاری بھی کی۔ اس دوران فرانز کافکا اور ارنسٹ ہیمنگ وے اس کے پسندیدہ ادیب تھے۔ 1947ئ اور1948ئ میں انہوں اپنے استاد بیریئرلی کی پروڈکشن اور ہدایات میں رومیوں اور میکبتھ کے کردار بھی ادا کئے۔
ادب کے علاوہ پنٹر کا پسندیدہ مشغلہ کرکٹ کا کھیل بھی تھا۔ نوجوانی کے دور میں اس نے بیشتر وقت کرکٹ کھیلتے ہوئے گزارا۔ 1971ئ میںایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ٴٴمیری زندگی کا ایک دور وہ بھی تھا جب میں ہر وقت کرکٹ کو اپنے ذہن میں بٹھائے رکھا کرتا تھا۔ہر وقت یہ کھیل کھیلتا، دیکھتا اور اس کے بارے میں پڑھا کرتا تھاٴٴ۔ ہیرلڈ پنٹر اپنی سرگزشت میں اپنے خاندان، خواتین سے عشق، شراب نوشی ا ور لکھنے پڑھنے سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہیرلڈ پنٹر نے لندن میں رائل اکیڈمی اور ڈرامیٹک آرٹس سے بھی تعلیم حاصل کی۔ لیکن یہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ اس کے لئے خوشگوار نہ رہا۔ 1949ئ کو انہیں نیشنل سروس کے لیے بلایا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس بنا پر ان پر عدالت نے 30پائونڈ کا جرمانہ کیا ۔ یہ جرمانہ ان کے والد نے ادا کیا۔
1950ئ کی دہائی میں انہوں نے شاعری کا بھی آغاز کیا جو مختلف جرائد میں شائع ہوتی رہی۔ چند برس بعد ہیرلڈ پنٹر نے ڈیوڈ برون کے نام سے باقاعدہ طور پر ڈرامہ نویسی کا آغاز کیا۔ اس کا پہلا ڈرامہ ٴدی رومٴ تھا۔ جو انہوں نے برسٹل یونیورسٹی کے ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ کے لئے لکھا تھا۔ 1959ئ میں ٴاے سلائیٹ آچےٴ ان کی ریڈیو کے لئے پہلی تخلیق تھا۔ ہیرلڈ پنٹر کا پہلا مکمل سٹیج ڈرامہ ٴدی برتھ ڈے پارٹی ٴ تھا جسے 1957ئ میں پہلی بار پیش کیا گیا۔ لیکن اس کھیل کا مایوس کن حد تک رد عمل سامنے آیا۔ یہ ڈرامہ بنیادی طور پر فرانز کافکا کے سٹائل میں تھا۔ ایک عام آدمی جسے چند اجنبی افراد ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ لیکن یہ بات منظر عام پر نہیں آتی کی وہ ایسا کیوں کر رہے ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ تنقید نگاروں کی جانب سے اس ڈرامے کو حوصلہ افزا ئی بھی ملی۔ ہیرلڈ پنٹر کا اس حوالے کہنا ہے کہ ٴٴمیرے خیال میں ناقدین غیر ضروری لوگ ہیں۔ ہمیں ناظرین کوآگاہ کرنے کے لئے ناقدین کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام دیکھیں اور اپنا تجزیہ خود کریںٴٴ۔
ہیرلڈ پنٹر نے ڈراموں میں زبان کو محض رابطے کے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ سادہ الفاظ کے ساتھ گہری بات کرنے کا فن وہ جانتے تھے۔ خاموشی کو ، محبت ،رغبت ،خوف اور غصے کی علامت کے طور پر بھی مختلف انداز میں استعمال کیا۔ مارٹن ایسلن ان کے ڈرامے ٴدی پیپلز وائونڈٴ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ٴپنٹر کے لکھے ہوئے مکالمے شاعری سے بھی زیادہ وزن اور ربط میں ہیںٴٴ۔ ٴدی برتھ ڈے پارٹیٴ کے بعد اس نے ٴدی ڈمب ویٹرٴ پیش کیا جس سے اس کا شمار جدید روایت کے حامل ادیبوں میں کیا جانے لگا۔ بعدازاں اس کے ڈراموں ٴدی کولیکشنٴ۔ ٴدی ڈرافسٴ اور ٴدی لورزٴ نے بھی ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ہیرلڈ پنٹر کے آغاز کے کام میں سب سے اہم ٴدی ہوم کمنگٴ کو سمجھا جاتا ہے۔ اس ڈرامہ کو ٴٹونی ایوارڈٴ، وائیٹ بریڈ اینگلو امریکن ایوارڈٴ اور ٴنیو یارک ڈرامہ کریٹیکس سرکل ایوارڈٴ دیا گیا۔ یہ ایک نوجوان ٹیڈی کی کہانی تھی جو امریکہ میں زیر تعلیم ہوتا ہے۔ وہاں شادی کے بعد وہ اپنے خاندان سے ملنے کے لئے لندن آتا ہے۔ اس کے خاندان کے تمام افراد مرد ہیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ٹیڈی واپس امریکہ چلا جاتا ہے لیکن اس کی بیوی رتھ اس کے گھر میں رہتی ہے جسے جنسی طورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی قسم کے موضوعات اس نے ٴلینڈ سکیپ اینڈ سائیلنسٴ اور ٴاولڈ ٹائمزٴ میں بھی پیش کئے ہیں۔ پیرلڈ پنٹر کا ٴدی ہوم کمنگٴ کے بارے میں کہنا تھا کہ ٴاس ڈرامے میں کوئی شخص زیادہ دیز تک کمرے میں نہیں رکتا تھا۔ دروازہ کھلتا بند ہوتا رہتا اور کردار آتے جاتے رہتےٴٴ۔
ہیرلڈ پنٹر نے کئی فلموں کے سکرین پلے بھی لکھے جن میں ٴدی سرونٹٴ، ٴدی ایکسیڈنٹٴ۔ ٴدی گو بٹوینٴ۔ ٴبیٹرئیلٴ۔ ٴٹرٹل ڈائیریٴ۔ ٴری یونینٴ اور کافکا کے ناول ٴٹرائلٴ کا سکرین پلے شامل ہیں۔ 1990ئ کی دہائی میں ہیرلڈ پنٹر نے سکرین پلے رائیٹنگ سے زیادہ ہدایت کاری کی جانب توجہ دینا شروع کر دی۔
ہیرلڈ پنٹر کے ادبی سفر میں 1973ئ میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ چلی کے صدر الانڈے کا تختہ الٹنے کے واقعہ کا ان پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے بطور سماجی کارکن عوام کے حقوق کی آزادی کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ 1999ئ میں انہوں نے کوسوو کی جنگ کے حوالے سے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے نیٹو افواج کی مداخلت کی بھی مخالفت کی اور انہیں اس ملک میں خوف، دہشت اور تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔ ہیرلڈ پینٹر ایک سیاسی سوچ کی حامل شخصیت تھے اور زندگی کے آخری برسوں میں وہ اپنی سیاسی تحریروں کے وجہ سے پہچانے جانے لگے۔ہیرلڈ پینٹر نے2003ئ میں عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ 13اکتوبر 2005ئ کو انہیں ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے بارے میں سویڈش اکیڈمی نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ٴٴہیرلڈ پنٹرàوہ جس نے اپنے ڈراموں میں روز مرہ کی بات چیت میں دانائی کے ساتھ ظلم کی تاریک کمروں کی منظر نگاری کیٴ۔ انہوں نے نوبل پرائز تقریب میں اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ صدر بش اور ٹونی بلیئر پر عالمی عدالت انصاف میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔ ہیرلڈ پینٹر نے کہا تھا کہ بیشتر سیاست دان طاقت پر اپنے کنٹرول کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں، سچائی میں نہیںٴ۔فروری2005ئ میں ہیرلڈ پنٹر نے ایک انٹرویو کے دوران سکرین پلے رائیٹنگ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٴمیں نے 29 ڈرامے لکھے ہیں۔ کیا یہ کافی نہیں؟ ٴ اس موقع پر انہوں نے عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ اب وہ اپنی تمام تر توانائی سیاست کے حوالے سے خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈرامہ نویسی کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کرنے والا یہ ادیب 78برس کی عمر میں25دسمبر 2008ئ کواس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ بلاشبہ اس کے تخلیق کئے ہوئے کردار تادیر دیکھنے اور پڑھنے والوں کے اذہان پرنقش رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment