باغیانہ افکار اور آزادی اظہار کی ترجمان
نوبل انعام برائے ادب 2009ئ حاصل کرنے والی جرمن ادیبہ ہیرٹا مُلر
سماجی پابندیوں اور معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے ساتھ دلفریب اور خوبصورت رنگوں سے آراستہ شاعری رومانوی نږاد جرمن ادیبہ ہیرٹا مُلر کے فن کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ سنگین حالات اور خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی نے ان کی تخلیقات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ زبان کی سادگی، دلکش منظر نگاری اور باغیانہ افکار کی ترجمانی ان کو موجودہ دور کے دیگر ادیبوں سے ممتاز بنادیتی ہے۔
ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے اعتراف میںسال 2009ئ کے نوبل انعام جرمن شاعرہ اور ادیبہ ہیرٹا مُلر کو دیا گیا ہے۔گزشتہ سال فرانسیسی ادیب لی کلیزیو کو نوبل پرائز دیا گیا تھا جبکہ 2007ئ میں ادب کا نوبل پرائز برطانوی ادیب ڈورِس لیسنگ نے حاصل کیا تھا۔نوبل انعامات کا سلسلہ سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ یہ اعزاز سویڈن سے تعلق رکھنے والے انیسوی صدی کے متنازعہ سائنس دان اور بارود کے موجد الفریڈ نوبل کی آخری خواہش کے طور پر ادب، امن اور سائنس کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے والے افراد کو دیا جاتا ہے۔
ہیرٹا مُلر کا تعلق بنیادی طور پر رومانیہ کی جرمن اقلیتی آبادی والے قصبے نٹسکی ڈورف سے ہے۔ انہوں نے 17 اگست 1953ئ کو رومانیہ کے اس قصبے کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ ان کے والد کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ تھے جبکہ ان کے دادا کا شمار امیر اور معتبر کسانوں میں کیا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے کم عمری میں اپنی والدہ کے ساتھ سابقہ سویت یونین کی ریاست یوکرین کے جبری مشقت کے کیمپس میں بھی اپنی زندگی کے پانچ سال گزارے۔ انہوں نے رومانیہ میں ٹمیسورا یونیورسٹی سے جرمن زبان اور رومانین ادب کی تعلیم حاصل کی تھی۔
ہیرٹا ملر نے 1976ئ میں ایک انجینئرنگ فیکٹری میں بطور مترجم ملازمت کا آغاز کیا تھا ۔لیکن 1979ئ میں چاشسکو سرکار کی خفیہ پولیس سے تعاون نہ کرنے کی پاداش میں انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا جس کے بعد وہ جرمن زبان کی تدریس سے منسلک ہو گئیں۔ اسی دوران انہوں نے لکھنے لکھانے کا آغاز کیا۔ 80ئ کے آغاز میں انہوں نے ادب کے میدان میں باقاعدہ قدم رکھا اور مختصر کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا ۔ ابتدا میں مُلر کی تحریروں کو اسمگل کر کے جرمنی میں بیچا جاتا تھا۔ ان کی پہلی کتاب 1982ئ میں شائع ہوئی جسے رومانیہ میں سنسر کر دیا گیا۔ افسانوں کے اس مجموعے میں انہوں نے جرمن زبان بولنے والے اقلیتی بچوں کی سوچ کے زاویوں کا احاطہ کیا تھا۔ بعدازاں ان کا ناول ٴٴدی لینڈ آف گرین پلمزٴ منظر عام پر آیا۔ اس ناول میں انہوں نے لکھاریوں پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ جبکہ ناول کا مرکزی کردار وہ خود ہی تھیں اور انہوں نے ذاتی تجربات کو ناول کی شکل میں پیش کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے بے جا پابندیوں اور حکومتی دبائو کے پیش نظر وہ 1987ئ میں اپنے شوہر رچرڈ واگنر کے ہمراہ جرمنی ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ رچرڑ وانگنر کا شمار بھی معروف ناول نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ ہیرٹا ملر دیوارِ برلن کے انہدام سے دو سال قبل اپنے شوہر کے ہمراہ برلن آئیں اور تب سے وہیں مقیم ہیں۔ ایک انٹرویو میں ہیرٹا ملر نے کہا تھا کہ انہوں نے رومانیہ میں رہتے ہوئے بے حد مشکل حالات میں جرمن زبان سیکھی اور پھر شعر اور نثر لکھنے کا آغاز کیا۔
ہیرٹا ملر نے جرمنی میں قیام کے دوران مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ عرصہ دراز تک ہیرٹا ملر عوامی سطح پر نظروں سے اوجھل رہیں ۔ بین الاقوامی سطح پر پر ان کو مقبولیت نوے کی دہائی میں حاصل ہوئی۔ ان کے فن کی پذیرائی 1997ئ میں منظر عام پر آنے والے ان کے ناول ٴدی اپا¶نٹمنٹٴ سے شروع ہوئی۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے نئے ناول ٴایٹم شائوکل ٴ یعنی ٴسانس کا جھولاٴمیں ہیرٹا ملر نے رومانیہ کے جلاوطن جرمن نږاد شہری کی کہانی بیان کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن شہریوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی انہوں نے نہایت خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔ اس ناول کا مرکزی خیال شاعر اوسکر پاسٹئر کے سرگزشت سے لیا گیا جبکہ ملر کی والدہ نے بھی اسی قسم کے سنگین حالات کا سامنا کیا تھا۔
تنقید نگار اور ادیب ڈینس شیک ایک بار برلن میں ہیرٹا ملر کے گھرگئے تو انہوں نے ہیرٹا مُلر کو لکھنے کی میز کے سامنے بیٹھے دیکھا جن کے اردگرد اخباری تراشوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ تمام تراشے زبان کی ساخت جاننے اور لکھنے کے عمل کے دوران مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ ڈینس شیک کا کہنا تھا کہ ٴٴمیں نے اس موقع پر محسوس کیا کہ میں کسی شاعر کی تجربہ گاہ میں داخل ہوگیا ہوںٴٴ۔
نوبل اکیڈمی کی جانب سے 2009ئ میں ہیرٹا مُلر کو ادب کے لئے ان کے خدمات کے عوض نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ ان کی تحریروں میں مختصر جملے اور انتہائی سادہ زبان کا استعمال انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے نوبل جیوری نے ان کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ٴٴ بے ساختہ نثر اور شاعری پر خصوصی توجہ ہیرٹا ملر کے فن کی انفرادیت ہیں اور اِس سے اُن کے ادب کو جلا ملی ہے۔ٴٴ ہیرٹا کو نوبل اعزاز کے ساتھ ساتھ چودہ لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی ایک کروڑ سویڈش کرونر کی رقم بھی بطور انعام ادا کی جائے گی۔ ان کا اپنی تحریروں میں نکولائی چاشسکو کے دور میں مشکل حالات کی تصویر کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں ۔
ہیرٹا ملر کا کہنا ہے کہ ادب کا نوبل انعام ملنے کی خبر سن کر وہ ٴٴدنگ رہ گئیں اور انہیں اس کا یقین نہیں آیا۔ ٴٴ سویڈش اکیڈمی نے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا کہ ٴٴان میں بے دخل کیے گئے لوگوں کی حالت زار بیان کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ان کی تحریروں میں شاعری کی یکسوئی اور نثر کی بے تکلفی پائی جاتی ہے۔ ٴٴ ہیرٹا ملر نے جرمن اور رومانین دونوں زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ٴٴیہ محض دو زبانیں ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ جہان ہیں۔مثال کے طور پر رومانیہ میں ٹوٹتے ستارے کو موت کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ جرمنی میں لوگ ٹوٹا ہوا ستارہ دیکھ کر کسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ ٴٴ وہ رومانین علاقائی موسیقی میں بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں جرمن اور رومانین دونوں تہذیبوں کا رنگ نمایاں جھلکتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ان کے شوہر رچرڈ واگنر کی شخصیت بھی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں۔ وہ دونوں رومانیہ میں پلے بڑھے، یونیورسٹی میں رومانین ادب کے طالب علم رہے اور بعدازاں دونوں نے ہی جرمن زبان کے استاد کے طور پر ملازمت بھی کی۔ آزادی رائے کے لئے ملر اور ان کے ادب سے وابستہ شوہر کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں بے باک انداز میں اپنے حقوق کے حصول اور آزادی رائے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ حکومتی دبائو کے باوجود انہوں نے حقیقت کو افسانوی انداز میں بیان کر کے اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچایا ہے۔ ان کے ناولوں کے بیشتر کردار حقیقی زندگیوں سے تراشے ہوتے ہیں۔
wonderful article
ReplyDelete