Wednesday, June 2, 2010

Salvador Dali

علامتی فن مصوری کا منفرد انداز

فرانس کے عظیم مصور اور مجسمہ ساز سلواڈور ڈالی کی داستان حیات

سخت گرمیوں کے دن تھے اور ایک نوجوان فنکار اپنے کمرے میں رنگوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس کی بیوی شاید گھر پر نہیں تھی۔ دوپہر کا کھانا اس کے سامنے پڑا ہوا تھا جو اس نے آدھا کھانے کے بعد ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ پنیر گرمی کی شدت سے پگھل پگھل کر نیچے کر رہی ہے۔ اس منظر نے اس کے ذہن میں ایک کہرام پیدا کر دیا۔ اس خیال کو اس نے کینویس پر مصور کرنے میں ذرا تامل نہ کیا۔ وہ اس وقت ایک لینڈ سکیپ بنا رہا تھا۔ چٹانوں اور درختوں کے پس منظر میں اس نے برش چلانا شروع کر دیا۔ اور پگھتی ہوئی گھڑیاں بنا ڈالی۔ اس نوجوان مصور کو آج آرٹ میں سکواڈور ڈالی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی یہ پینٹنگ ٴدی پرزسٹنس آف میمریٴ کے نام سے مشہور ہے۔ سلواڈور ڈالی ناصرف ایک مصور تھا بلکہ اس نے آرٹ کے دیگر شعبوں فلم، تھیٹر، فوٹوگرافی اور ڈیزائننگ میں بھی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

سلواڈور ڈالی 11مئی 1904ئ کو سپین میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع قصبے فگیورز میں پیدا ہوا۔ اس کے والد درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل تھے۔ سلواڈور ڈالی کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے ایک بھائی کا دو برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا، اس کا نام بھی سلوڈور ڈالی تھا۔ اس لئے اس وکیل کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی تو اس کا نام بھی سلواڈور ڈالی رکھا گیا۔ سلواڈور جب پانچ برس کی عمر کا ہوا تو وہ اپنے والدین کے ہمراہ اپنے بھائی کی قبر پر گیا جہاں اس کے والدین نے اسے بتایا کہ وہ اس قبر میں لیٹے ہوئے بچے کا دوسرا جنم ہے۔   سلواڈور ڈالی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ٴٴہم دونوں بھائی پانی کے دوقطروں کی مانند تھے لیکن ہمارا عکس جدا جدا تھا۔ وہ شاید میری ذات کا پہلا وجود تھاٴٴ۔ سلواڈور ڈا لی نے ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈرائینگ سکول میں تربیت بھی حاصل کی۔ 1917ئ میں پہلی بار اس کے والد نے شہر کے میونسپل تھیٹر میں سلواڈور ڈالی کی چارکول سے بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا۔  سلواڈور ڈالی کی عمر سولہ برس ہوئی تو اس کی والدہ کینسر کے مرض سے انتقال کر گئیں۔ اس کی والدہ کی موت نے اس پر ذہن پر خاصا گہرا اثر ڈالا۔ اس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ

 ٴٴیہ میری زندگی کا سب سے المناک لمحہ تھا۔ میں ان کی پوجا کیا کرتا تھا۔ ان کی موت کی صورت میں مجھے جو نقصان پہنچا ہے میں اس کی تلافی نہیں کرسکا۔ٴٴ

سلواڈور ڈالی نے 1922ئ میں  میڈرڈ کا رخ کیا اور سکول آف فائن آرٹس میں داخلہ لیا۔ اس سکول میں اس نے اپنے ظاہری حالت اور ملبوسات کے انتخاب کے باعث جلد ہی شہرت اختیار کر لی۔ لیکن اس کو صحیح معنوں میں شہرت ٴکیوب ازمٴ تحریک میں شامل ہونے سے ملی۔ فرانس سے جاری ہونے والی یہ تحریک  ابھی تک یورپ میں پروان نہیں چڑھ سکی تھی اور مڈرڈ میں اس تحریک سے کوئی بھی منسلک نہیں تھا۔ابتدائی دور میں سلواڈور ڈالی بھی اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتا تھا۔ 1924ئ تک وہ عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنا ہوا تھا جب اس نے ایک کتاب کے لیے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ یہ کتاب اس کے ایک ہم جماعت شاعر دوست کی تھی جس کا اٹائٹل اس نے تخلیق کیا تھا۔  ٴکیوب ازمٴ کے علاوہ سلواڈور ڈالی نے ٴڈاڈا ازمٴ کی تحریک میں بھی کچھ تجربات کئے۔ ہاسٹل میں قیام کے دوران اس کی دوستی کئی پیپن بیلو، لیوس بنیوئل جیسے مصوروں اور فیڈریکو گارشیا لورکا کے ساتھ ہو گئی۔ 1926ئ میں اس سالانہ امتحانات سے قبل اسے اکیڈمی سے نکال دیا گیا کیونکہ اس نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس اکیڈمی میں کوئی بھی استاد کے پایہ کو چھو نہیں سکتا۔ اسی برس اس نے اپنی مشہور پینٹنگ ٴباسکٹ آف بریڈٴ کو کینوس پر پینٹ کیا۔ اکیڈمی سے خارج ہونے کے بعد اس نوجوان مصور پیرس کا رخ اختیار کیا جہاں اس نے پابلو پکاسو کے ساتھ ملاقات کی۔ حیرت کی بات یہ کہ پکاسو سے ملاقات سے پہلے ہی اس کی شہرت اس تک پہنچ چکی تھی۔ پکاسو نے ڈالی کے فن کو بے حد سراہا اور اس نے منفرد تخلیقی انداز کو پسند کیا۔ سلواڈور ڈالی کی بنائی ہوئی پینٹنگ میں ہمیں پابلو پکاسو کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ باپلو پکاسو کے علاوہ سلواڈور ڈالی رافیل، بروزینو، ویرمیز  اور فرانسسکو زربرن کے فن سے بھی بے حد متاثر تھا۔ اس نے اپنے ماڈرن اور کلاسیکی دونوں تکنیکوں کو بروئے کار لایا۔اس دور میں اس کی مصوری کی نمائشوں کے بعد فن مصوری کے حوالے سے نئے بحث و مباحثوں کا آغاز ہوجاتا تھا۔ اسی دور میں اس نے اپنی مونچھوں کا انداز میں تبدیل کر لیا۔ جو اس کا ٹریڈ مارک بن گیا اور بعدازاں یہ انداز اس نے ساری عمر تبدیل نہیں کیا۔


 سلواڈور ڈالی نے 1929ئ میں ٴسریلسٹٴ تحریک سے وابستہ فلم ڈائریکٹر لیوس بنوئل کے ساتھ مل کے ایک شارٹ فلم بنائی۔ جس میں اس کا بنیادی کام فلم کی کہانی لکھنا تھا۔ ڈالی نے فلم میں اداکاری کی خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن وہ اداکاری نہیں کر سکا۔ اگست1929ئ میں ا سکی ملاقات علینا ایوانووا دیاکونوا کے ساتھ ہوئی۔ اس کا تعلق روس سے تھا اور اس سے عمر میں گیا سال بڑی تھی۔ علیناکی سریلسٹ شاعر پال الورڈ کے ساتھ شادی ہو چکی تھی۔علینا گالا کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھی۔انہوں نے 1929ئ سے ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا اور1934ئ میں شادی کر لی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد ڈالی نے باقاعدہ طور پر سریلسٹ تحریک میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس عرصہ میں سریلسٹ تحریک سے منسلک بہت سے فنکاروں نے بائین بازو کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سیاست کا تعلق آرٹ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سریلسٹ تحریک کے روح رواں آندرے بریٹن نے ایک مرتبہ سلواڈور پر اعتراض کیا اور کہا کہ تمہارا رویہ ہٹلر کے اصولوں کی پیروی کر رہا ہے جس پر سلواڈور ڈالی کا کہنا تھا کہ ٴٴمیں ایسا جان بوجھ کر کرتا ہوں اور نہ انجانے میںٴٴ اس کے اس رویے پر اس کے خلاف احتجاج کیا گیا اور اسے سریلسٹ تحریک سے خارج کر دیا گیا۔ سلواڈور ڈالی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ٴٴمیں بذات خود سریل ازم ٴ ہوںٴٴ۔ 1940ئ میں یورپ میں جب دوسری جنگ عظیم کے باعث حالات کشیدہ ہوئے تو سلواڈور ڈالی اور گالا نے امریکہ کا رخ اختیار کر لیا۔ امریکہ میں انہوں نے آٹھ برس قیام کیا۔ اس قیام کے دوران ڈالی نے کئی فلموں کی کہانیاں بھی لکھی۔



سلواڈور ڈالی کے فن کا اہم عنصر علامتیں ہیں۔ اس نے اپنی تصاویر میں گھڑیوں اور ہاتھیوں کو منفرد انداز میں علامتی طور پر پینٹ کیا ہے۔ اس کا  علامتوں کے بارے میں کہنا تھا کہ ٴٴمیں ایسی تصاریر مصور کرنا چاہتا ہوں جسے دیکھ کر خوشی سے میں مر جائوں۔ میں ایسی چیزیں بنا رہا ہوں جنہوں نے مجھے متاثر کیا اور جو میرے جذبات کے ساتھ وابسطہ ہیں اور میں انہیں ایمانداری کے ساتھ کینوس پر ڈھالنا چاہتا ہوں۔ٴٴ اس کے علاوہ اس نے انڈے، چیونٹی اور کیڑے مکوڑوں کو بھی مختلف جذبات کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا۔


سلواڈور ڈالی ایک ورسٹائل فنکار تھا۔ اس نے خود مصوری تک محدود نہیں رکھا۔ اس نے مجمہ سازی بھی کی اور اس کے ساتھ ساتھ تھیٹر ، فیشن اور فوٹوگرافی کے شعبہ میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ 1941ئ سے1970ئ کے درمیان اس نے متعدد زیورات کے ڈیزائن بھی تیار کئے جن میں سب سے معروف ٴدی رائل ہارٹٴ ہوا۔ جس میں اس نے 46 لعل،42ہیرے اور4یاقوتوں کا استعمال کیا۔ تھیٹر کے حوالے سے اس کا اہم کارنامہ 1927ئ میں تھیٹر ڈرامہ ٴمریانہ پنیڈاٴ کے لئے منظرنامہ کی تیاری تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اوپرہ ٴتنہاشرٴ ، ٴلیبیرتھٴ اور ٴدی تھری کارنرڈ ہیٹٴ کے لئے بھی ڈیزائن تیار کئے۔ سلواڈور ڈالی کو فلموں میں بھی خاص دلچسپی تھی اور وہ نوجوانی میں ہر اتوار کو فلم دیکھنے ضرور جایا کرتا تھا۔ اس دور میں خاموش فلموں عوام کی توجہ کا مرکز تھیں۔ اس کا ماننا تھا کہ سینما کے حوالے سے دو نظریات پائیے جاتے ہیں ایک یہ کہ کیمرہ کی آنکھ کی مدد سے جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ اور دوسرا وہ انداز جو تصاویر اور منظر میں ہم دیکھتے ہیں جس میں ہمیں تخلیقی کام نظر آتا ہے۔ ڈالی فلموں میں کیمرے کے سامنے اور کیمرے کے پیچھے دونوں حوالوں سے اپنے فن کا اظہار کرتا تھا۔ اس نے معروف فلم میکر الفریڈ ہچکاک کے ساتھ بھی کام کیا۔ ہچکاک کی فلم ٴسپل بائونڈٴ کا مرکزی خیال خواب تھے۔ اس لئے اس نے سلواڈور ڈالی کی خدمات حاصل کی۔ اس نے ایسی تصاویر تیار کیں جو بالکل خواب کی سی کیفیت پیدا کر دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے ڈزنی پروڈکشنز کے ساتھ کارٹون فلمیں بھی بنائیں۔

1980ئ کی دہائی میں سلواڈور ڈالی کی صحت بری طرح گرنا شروع ہو گئی اور دوسری جانب اس کی بیوی گالا پہلے ہی شدید بیمار تھی۔1982ئ میں گالا کی موت کے بعد سلواڈور ڈالی کے لئے زندگی کے کٹھن دن شروع ہو گئے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس دوران اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ 1984ئ میں اس کے کمرے میں آگ بھڑک اٹھی جس میں اس موت واقع ہوگئی۔ بعض افراد نے اسے خودکشی بھی قرار دیا۔ لیکن دوستوں کی بروقت آمد سے ان کی جان بچالی گئی۔نومبر1988ئ میں اس کو دل کے عارضے کے باعث ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔ لیکن دو ماہ بعد ہی یہ عظیم فنکار 23جنوری1989ئ کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ لیکن اس کا فن آج بھی زندہ ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو اس کی اہمیت کا احساس دلاتا رہے گا۔



No comments:

Post a Comment