Wednesday, June 9, 2010

Orhan Pamuk


اپنی ذات کی تلاش کا سفر
  
ترکی کے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پاموک کا زندگی نامہ 



اورہان پاموک کہتے ہیں کہ ”بہت چھوٹی عمر سے ہی میرے ذہن میں ایک خیال نے جنم لیا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں میری دنیا اس سے بڑھ کر ہے۔ استنبول کی گلیوں میں کہیں، میرے گھر سے ملتا جلتا کوئی گھر ہے جہاں ایک اور اورہان رہتا ہے۔پھر جب میرے والدین کا آپس میں جھگڑا ہوتا تو میں اپنی توجہ اس طرف سے ہٹانے کے لئے ایک کھیل کھیلتا تھا۔ وہ یہ کہ اپنی والدہ کی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو جاتا اوراس پر لگے تین شیشوں میں اپنے عکس میں دوسرے اورہان کو تلاش کرتا۔“ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی ذات کی تلاش کا یہی کھیل بعدازاں انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پاموک کا شمار جدید ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔اورہان پاموک نے اپنے ناولوں میں متنازعہ مسائل سے نمٹنے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی ۔انہوں نے موجودہ دور کے مسائل اور تہذیبوں کے ملاپ کو اپنے تحریروں کا مرکزی خیال بنایا ہے۔ ان کی کتابیں 40سے زائد زبانوں میں ترجمے کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں ۔

اورہان پاموک 7جون 1952کو ترکی کے شہر استنبول کے ایک سرمایہ دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کا خاندان معاشی طور پر غیر مستحکم صورتحال کا شکار تھا۔ انہوں نے اسی حوالے سے اپنے خیالات اور مشاہدات اپنے ناولوں ’دی بلیک بک‘۔ ’مسٹرکیوڈٹ اینڈ ہز سنز‘ اپنی سرگزشت حےات ’استنبول‘ میں قلمبند کئے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم رابرٹ کالج سکینڈری سکول استنبول سے حاصل کی۔ اورہان پاموک کو پچپن سے ہی مصوری میں دلچسپی تھی اور انہوں نے بچپن میں مصوری میں نام پیدا کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے مضمون کا انتخاب کیا۔ ان کے خیال میں فن تعمیر مصوری سے مماثلت رکھتا ہے۔ لیکن تین برس بعد ہی انہوں نے آرکیٹیکچر کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور یونیورسٹی میں صحافت کے مضمون میں گریجویشن کی۔ اسی دوران انہوں نے کہانیاں اور ناول لکھنے کا آغاز کیا۔ بائیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان انہوں نے اپنا پہلا ناول لکھا اور پبلشرز کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیا۔اورہان پاموک کا تعلق مسلم گھرانے سے ہے لیکن انہوں نے اپنی تحریروں میں یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی شخص کی پہچان مذہب کے ساتھ ساتھ تاریخی اور ثقافتی پس منظر میں کی جانا چاہئے۔ 1974ءمیں اورہان پاموک باقاعدہ طور پر ناول نگاری کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ ان کا پہلا ناول ”ڈارکنیس اینڈ لائیٹ“ تھا جسے 1979ءمیں میلیٹ پریس کی جانب سے بہترین ناول کا ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ناول بعد ازاں ”مسٹر کیوڈیٹ اینڈ ہز سنز“کے نام سے1982ءمیں دوبارہ شائع ہوا۔ یہ ناول استنبول کے نواح میں بسنے والے ایک دولت مند خاندان کی تین نسلوں کی داستان تھی۔ اس ناول کا بیشتر حصہ اورہان پاموک کی ذاتی زندگی سے اخذ کیا گیا تھا۔ 

اورہان پاموک نے اپنے فنی سفر کے آغاز میں ہی کئی عالمی اعزازت و انعامات حاصل کئے۔ ان کے ناول ”دی وائیٹ کاسل“ کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں تبصرہ شائع ہوا کہ ”مشرق میں ایک نیا ستارہ ابھر کے سامنے آیا ہے۔۔۔ اور وہ اورہان پاموک ہے“۔ اورہان پاموک کی تحریروں میںکئی طرح کے موضوعات نظر آتے ہیں۔ ابتدائی ناولوں کے علاوہ ان کی تحریروں میں ما بعد ازجدیدیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ 1990ءمیں شائع ہونے والا ناول ’دی بلیک بُک‘ اورہان پاموک کا کامیاب ترین ناول قرار دیا جاتا ہے۔ موضوع، تکنیک اور پسندیدگی کے اعتبار سے اس ناول کو ترک ادب کا متنازعہ لیکن کامیاب ترین ناول سمجھا جاتا ہے۔ ان کے چوتھے ناول ’نیو لائف‘ کو بھی قارئین کی جانب سے توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اسی دوران انہوں نے کردوں کی حمایت میں سیاسی مضامین بھی لکھے۔ جس میں انہوں نے کردوں کے ساتھ ترک حکومت کے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کے مضامین کی کتاب ’ادر کَلرز‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ 

اورہان پاموک کو بین الاقوامی شہرت 2000ءناول ’مائی نیم از ریڈ‘ سے حاصل ہوئی۔ یہ ناول رومانس، سسپنس اور فلسفیانہ معموں کا مجموعہ تھا۔اس میں انہوں سولہویں صدی کے استنبول شہر کا تقشہ کھینچا تھا۔ یہ ناول سلطنت عثمانیہ کے سلطان مورت سوئم کے دور کی منظر نامہ پیش کرتا ہے، جس میں مشرق اور مغرب کے درمیان تضادات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ ناول چوبیس زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ اس ناول کو 2003 ءمیں انٹرنیشنل امپیک ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر اورہان پاموک کا کہنا تھا کہ ” میری زندگی میں کچھ تبدیلی نہیں آئی۔ میں نے تیس برس کا عرصہ ناول نگاری کرتے ہوئے گزارا ہے۔ پہلے دس برس میں پیسوں کے حوالے سے کشمکش کا شکار تھا اور کوئی مجھ سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ میں نے کتنے پیسے کمائے۔ دوسرے عشرے میں میں نے پیسے خرچ کئے تب بھی مجھ سے کسی نے اس بارے میں نہیں پوچھا۔ اور گزشتہ دس برس میں نے لوگوں سے یہ امید رکھی کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ میں پیسہ کیسے خرچ کرتا ہوں لیکن میں انہیں مطلع نہیں کرنا چاہوں گا۔ ان کا اگلا ناول ’سنو‘ تھا۔ جس میں انہوں نے ترکی کے ماڈرن معاشرے میں اسلام اور مغربی رجحانات کو موضوع بحث بنایا تھا۔

وہ اپنی سرگزشت ’استنبول‘ کے حوالے کہتے ہیں کہ ”میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی یاداشتیں چھ ماہ میں لکھوں گا۔ لیکن مجھے یہ کام مکمل کرنے میں ایک سال لگ گیا۔ اس دوران میں نے ہرروز بارہ گھنٹے لکھنے اور پڑھنے پر صرف کئے۔ میری زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔طلاق، والد کی موت، پروفیشنل مسائل۔ ان کے علاوہ اور بہت سارے مسائل۔ اگر میں کمزور ہوتا تو سخت ڈپریشن کا شکار ہو جاتا۔ لیکن ہر روز میں صبح ایک نئے جذبے کے ساتھ تحریر کا آغاز کرتا اور کتاب کی خوبصورتی کو اپنے ذہن میں رکھتا۔ “

اورہان پاموک نے اپنی زیادہ تر تحریروں میں انسانی شناخت کو موضوع بحث بنایا۔ ان کے خیال میں مشرق اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تضادات اور مشرقی تہذیبوں پر مغربی ثقافتوں کے اثرات نے انسان کی شناخت معدوم کر دی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں میں ہمیں ادب اور مصوری کے حوالے سے بحث و مباحثہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ مجموعی طور پر ان کے ناول ترک معاشرے کے عکاس ہیں۔ ترکی کا علاقہ تاریخی اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان تنازعات کا محور رہا ہے۔ اسی طرح ماڈرن ازم اور سیکولرازم بھی ان کے ناولوں کے اہم موضوعات میں شامل ہیں۔ 
اکتوبر 2006ءکو اورہان پاموک کو ادب کے لئے بے پناہ خدمات کے صلہ میں  نوبل انعام سے نوازا گیا۔ سویڈش اکیڈمی نے اورہان پاموک کے لئے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کیا کہ ”اپنی ذات کی تلاش کے سفر میں انہوں تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ کے لئے نئی علامتیں دریافت کی ہیں۔“ وہ کہتے ہیں کہ ”میری کتابیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مشرق اور مغرب ایک دوسرے کے قریب آر ہے ہیں۔ خواہ امن ہو یا انارکی یہ عمل جاری ہے۔ میرے خیال میں مشرق اور مغرب یا اسلام اور یورپ کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہئے۔ میری تخلیقات کا بنیادی موضوع یہی ہے۔“ نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل وہ ترکی میں خاصے متنازعہ رہے۔ جس کی وجہ 2005ءمیں ترکی کے حکام نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی میں سینکڑوں آرمینیائی کے قتل عام کا ذکر کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ اورہان پاموک کے خلاف ترکی کے حکام نے تضحیکِ ریاست کا الزام لگایا تھا۔ پاموک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ان کے ملک میں تیس ہزار کرد اور ایک ملین آرمینیائی باشندوں کا قتل عام ہوا تھا لیکن ان کے علاوہ اس بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ 

ترکی کے قانون کے مطابق کسی کے لیے بھی ترکی کی ریاست اور قومی اسمبلی کی توہین کرنا غیر قانونی ہے۔اورہان پاموک کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔ لیکن بعدازاں شدید بین الاقوامی تنقید کے پیش نظر ان کے خلاف یہ الزامات ترک کر دیے گئے۔اورہان پاموک کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے آرمینیائی قتل عام کے بارے میں بیان کا مقصد آزادیءاظہار کے مسائل پر توجہ دلوانا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو انٹریو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”میں ایک ادیب ہوں۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ حکومت کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ایک عام آدمی کا تطقہ نظر بیان کرتا ہوں۔ ایک عام آدمی ہی دوسروں کی تکلیف اور مشکلات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ تہذیبوں کے مابین پائے جانے والے تنازعات کا حل آسان نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ بےوقوف ہوگا۔ میرے خیال میں ادب کے ذریعے ہی ہم ایسی صورتحال کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے مکالمے کی شکل میں۔ یہی عناصر ایک ناول میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اور اسی قسم کے سیاسی ناول آج کے دور میں مقبول ہیں۔“ 



1 comment: